Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن کدھر جارہا ہے؟

بدھ 24جنوری 2018ءکو سعودی اخبار ”عکاظ“ کا اداریہ

یمن کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔سیاسی حل کی انتھک جدوجہد کے باوجود صورتحال گمبھیر ہے۔یمن کیلئے اقوام متحدہ کے ایلچی اسماعیل ولد الشیخ احمد کی جانب سے ثالثی کی مہم جاری رکھنے سے معذرت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ ان سے قبل اقوام متحدہ کے ایلچی جمال بنعمر بھی معذرت کرچکے ہیں۔یمنی بحران چوتھے برس میں داخل ہوچکا ہے۔ الشیخ احمد کے استعفے نے نئے منظر نامے کی بابت قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع کرادیا ہے۔ زیادہ ترجیح اس بات کو دی جارہی ہے کہ آئندہ مذاکرات اسی نکتے سے شروع ہونگے جہاں سے اسماعیل ولد الشیخ احمد نے ثالثی کا آغاز کیا تھا۔
یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے ناگہانی قتل، حوثیوں کی جانب سے یمنی پیپلز کانفرنس پارٹی کے حصے بخرے کرنے کی کوشش ، ولد الشیخ کی جانب سے اپنی مہم جاری نہ رکھنے کی خواہش کا اظہار پے درپے واقعات ہیں۔ یہ سب آئندہ مرحلے میں یمنی عوام کے مفادات کے حوالے سے مطلع ابر آلود کررہے ہیں۔ صورتحال عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو بڑی ذمہ داری سپرد کررہی ہے۔ عرب اتحاد نے یمنی عوام کیلئے جامع امدادی پروگرام شروع کردیا ہے۔ اسکا تقاضا ہے کہ عالمی برادری درپیش حالات سے نمٹنے کیلئے اپنا کردارادا کرے۔
مذکورہ پے درپے واقعات کے باوجود بہت سارے مبصرین کی رائے یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ عظیم امن عمل کی جہت میں آگے بڑھے گا۔ بین الاقوامی قراردادیں نافذ ہونگی۔ 2216پر عمل درآمد ہوگا۔ یمن کے ریاستی ادارے بحال ہونگے اور دہشتگرد حوثی ہتھیار ڈالدیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسماعیل ولد الشیخ کی معذرت کے بعد یمنی بحران کے حل کیلئے بین الاقوامی برادری نے کوئی سیاسی فارمولا تیار کرلیا ہے جسے نئے ایلچی کے طور پر نامزد برطانوی شہری آگے بڑھائیں گے۔ مارچ کے ابتدائی ایام ہی اس سوال کا صحیح جواب دینگے۔ تب ہی پتہ چلے گا کہ قیام امن کی جملہ کوششوں کو ایران اور حوثیوں کی جانب سے ٹھکرانے کے بعد یمن کامستقبل کیا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: