Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون کس کو زیادہ چاہتاہے؟

عبدالعزیز حسین الصویغ۔ المدینہ
قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ کالم میں وعدہ کیا گیا تھا کہ امریکہ کے عرب و مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کیساتھ اسکے قریبی روابط کی بابت اپنے 2دوستوں غرم اللہ اور ایہاب السلیمانی کے ساتھ ہونے والی گفتگوکا تذکرہ آج کے کالم میں کیا جائیگا۔ میں نے اپنا کالم یہ تحریر کرکے ختم کیا تھا کہ غرم اللہ نے جن نکات پر مجھ سے اتفاق کیا ہے اور میرے ایک اور دوست ایہاب السلیمانی نے اس حوالے سے مجھ سے جن نکات پر اختلاف کیا ہے ان کا تذکرہ آئندہ کالم میں کیا جائیگا۔
غرم اللہ الغامدی کی سوچ یہ ہے کہ اسرائیل اورامریکہ کو جو پہلو جوڑے ہوئے ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ ہیںجو عرب و مسلم ممالک کو امریکہ یا مغربی دنیا سے مربوط کئے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ سے جوڑنے والے 4اہم عناصر ہیں۔ جو یہ ہیں:۔
1۔ امریکہ عیسائی ریاست ہے۔ یورپی ممالک میں کیتھولک گرجا گھر کے جبر سے جان بچاکر نئی دنیا میں پناہ لینے والے پروٹیسٹنٹ کی اولاد کی ریاست ہے۔ انکے یہاں مقدس کتاب ”العہد الجدید “ میں تحریر ہے کہ(جو شخص بنو اسرائیل کو ناراض کریگا وہ رب کے غضب کا مستحق ٹھہرے گا)۔ اس بنیاد پر یہ لوگ اسرائیل کی مدد بطور عبادت کے کرتے ہیں۔
2۔ عیسائیت یہودیت کو آسمانی مذاہب کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اسلام کو آسمانی مذہب نہیں مانتی۔
3۔ یہ لوگ اسرائیل کو ایسی جمہوری ریاست مانتے ہیں جو انکے ورثے اور اقدار میں انہی جیسی ہے۔ انکاخیال ہے کہ اسرائیل آمرانہ نظام رکھنے والی ریاستوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔یہودی دولت اور میڈیا کے مالک ہیں۔ پریشر گروپ بنائے ہوئے ہیں۔
4۔ امریکہ اور اسرائیل کو جوڑنے والے عناصر امریکہ کے صدارتی امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران اسرائیل کے لئے زیادہ سے زیادہ دادو دہش کے وعدے کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی تحریک دیتے ہیں۔ ہر امیدوار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے امیدوار سے زیادہ اسرائیل کو دینے کے وعدے کرے۔ گویا مقابلہ اس بات کا ہوتا ہے کہ کون اسرائیل کو زیادہ چاہتا ہے۔ وعدہ پالیسی ہی نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنادیا ہے۔
غرم اللہ نے اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات کی بابت میری سوچ کی تائید و حمایت کی ہے ۔ دوسری جانب میرے دوست ایہاب السلیمانی میری اس سوچ سے متفق نہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ عالمی برادری خصوصاً امریکہ ، رو س اوریورپی ممالک اسرائیل میں عدم استحکا م پر متفق ہیں لیکن اسے غیر محفوظ ریاست بنائے رکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ جب تک ایسا ہوگا تب تک یہودی دماغ اور سرمایہ انکے یہاں محفوظ رہیگا۔ اسکے برعکس جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ایک ڈرامہ ہے، کردار تقسیم کئے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ اسرائیل کی مدد پر کمر بستہ نظرآتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس کے امن و امان کو سلب کرنا انکی حکمت عملی ہے۔ السلیمانی اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”نہ کوئی دوست ہمیشہ ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن، مفاد سب پر بھاری ہے“۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: