Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجھے اپنے وجود پر فخر ہے ،اسی طرح معاشرہ قبول کرے

ہمارا وجود ہمارے لئے بوجھ بن جاتا ہے، شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ دولہا دلہن کو چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگتے، جب تک ہم  بچے تھے سب سچے تھے ، معاشرہ ہی ہمارا مجرم ہے، ہمارا وجود ہمارے  لئے بوجھ بن چکا ہے، پھر ہماری کمیونٹی ہی سب کچھ ہوتی ہے
 مصطفی حبیب صدیقی
وہ بات ایسی کررہی تھی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو بس اتنا ہی تو ہوا ہے کہ اسے اس کے اپنوں نے اپنا سمجھنے سے انکار کردیا۔بہت بڑا دل تھا بار بار اپنے ’’اپنوں‘‘ کو دعائیں دے رہی تھی ،نجانے کیسے اتنا غم ،درد اور تکلیف سہنے کے باجود مسلسل اس کی زبان پر دعا ہی تھی۔وہ ایک خواجہ سرا تھی۔نام بندیا تھا۔میری ملاقات ایک پروگرام میں ہوئی ۔میں نے صرف اتنا پوچھا کہ تمہارے گھر والوںنے تمہیں اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھا تو جھٹ صفائی دینے لگی۔۔
نہیں بھائی !میرے گھر والوں کا کیا قصور،وہ تو بے چارے معصوم ہیں،ان کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ان کے گھر ایک خواجہ سرا پیدا ہوئی ہے۔میری امی تو خوش تھیں کہ چلو 3بہنوں پر ایک بھائی ہوا ہے اس طرح پہلے سے موجود 2 بھائیوں کے ساتھ اب 3 بھائی ہوگئے ہیں مگر میری تمام عادتیں ہی لڑکیوں والی تھیں ۔وہ مجھ پر چیختی چلاتیں کہ بھئی تم لڑکے ہو ،لڑکے والے کام کیا کرو مگر میں کیا کروں میرا تو کسی لڑکے والے کام میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔میں کھیلتی بھی لڑکیوں کے ساتھ تھی،اسکول میں بھی لڑکیاں ہی میری دوست تھیں،میرا نام تو شیما تھا مگر وہ لوگ مجھے شرمیلی کہتے تھے۔میں جب 7سال سے کچھ بڑی ہوئی تو تھوڑی بہت عقل آگئی تھی،میں بڑے شوق سے گھروالوںکے ساتھ شادی وغیرہ کی تقریبات میں جاتی تھی مگر تقریبات میں  لوگ دولہا ددلہن کو چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگتے۔میں گھبراتی نہیں تھی بلکہ خوش ہوتی تھی مگر امی ابو اور بہن بھائی بہت شرمندہ ہوتے تھے۔بھائی میرا کیا قصو ر تھا ۔اگر میں ایسی تھی میں بھی تو انسان ہوں،میں کیا اپنے والدین کی اولاد نہیں تھی ؟کیا میں اپنے بہن بھائیوں کا خون نہیں تھی؟اگر میں تیسری جنس ہوں تو یہ تو میرے اللہ کا فیصلہ ہے اور میں نے کبھی اس پر شکوہ نہیںکیا ۔جو ہوں اس پر خوش ہوں۔
میں خواجہ سرا ہوں اور مجھے اپنے وجود پر فخر ہے،مجھے اسی طرح قبول کیاجائے نہ کہ مجھے مرد یا عورت کے سانچے میں زبردستی ڈ الا  جائے  ۔میں قاتل یا چور نہیں بنی،  نہ ہی غلط راستے پر چلی،میں نے تعلیم حاصل کی اور اپنی کمیونٹی کیلئے کام کرتی ہوں۔شروع میں میں بھیک مانگتی تھی مگر اب میں تعلیم یافتہ خواجہ سرا ہوں۔مجھے معاشرے میں برابری کا حق دیا جائے۔ میں کیا بتائوں میں نے ایل ایل بی کیا ہے جبکہ کراچی کے بہت بڑے انگریزی میڈیم اسکول سے میٹرک کیا ۔
میں آپ کو کیا بتاوں مصطفی بھائی!جب میں اسکول جاتی تھی تو میرے کلاس فیلوز مجھ سے الگ ہوجاتے۔جب تک ہم بچے تھے سب سچے تھے مگر جیسے ہی بڑی کلاسز میں آئے لوگوں کو ’’عقل ‘‘ آگئی۔میں کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں رہائش پذیر تھی۔میرے والد انجینئر ہیں جبکہ والدہ بھی بہت پڑھی لکھی ہیں۔بھائی بہن سب پوزیشن ہولڈرز ہیں۔میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ اپنے گھروالوںکو کبھی شرمندہ نہیں ہونے  دونگی اور خوب پڑھوں گی ۔میرے والد نے میری تعلیم کے تمام اخراجات اٹھائے ،کبھی پیسوں سے منع نہیں کیا مگر وہ مجھے لوگوں کے سامنے اپنی اولاد تسلیم کرنے سے کتراتے تھے۔میری ماں تو میرے لئے تڑپتی تھی جبکہ بہنیں بھی اپنی دوستوں میں بغیر خوف سے بتادیتی تھیں کہ ہاں یہ ہماری بہن ہے مگر میرا باپ اور میرے بھائی شاید بہت کمزور ہیں وہ ڈرتے ہیںکہ معاشرہ کیا کہے گا۔وہ مجھے ’’اون ‘‘ نہیں کرتے۔میں اپنے گھر ملنے جاتی ہوں مگر والد صاحب کا حکم ہے کہ رات کو آیا کرو اور صبح ہونے سے پہلے چلی جایا کرو،میں اپنے گروہ کے ساتھ رہتی ہوں۔
مصطفی بھائی!آپ شاید کبھی وہ درد محسوس نہ کرسکیں جو ہم خواجہ سرا کرتی ہیں۔ہمارا وجود ہمارے لئے بوجھ بن جاتا ہے۔ہمارا گروہ ہمارا سب کچھ ہوتا ہے۔ہم معاشرے میں عزت کا مقام چاہتی ہیں مگر جب بھی ہم کہیں ملازمت کیلئے جاتے  ہیں تو ہمیں دھتکارا جاتا ہے یا پھر غلط کام کیلئے کہاجاتا ہے۔حتیٰ  کہ دکان پر سبزی لینے بھی جائیں تو سبزی فروش وہ سبزی دیتے ہیں جو خراب ہوچکی ہو۔میں تو پڑھ لکھ گئی ہوں اوروکیل بننا چاہتی ہوں ،میں سب کا مقدمہ لڑکوں گی بھلے وہ مرد ہو ،عورت ہو یا خواجہ سرا مگر ہمارا مقدمہ کبھی کوئی مرد یا عورت وکیل نہیں لڑتی۔میں کیا بتائوں جب میں کسی شادی کی تقریب دیکھتی ہوں تو مجھ پر کیا گزرتی ہے،ٹھیک ہے میری شادی نہیں ہوسکتی مگر کیا میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کی شادی میں بھی شریک نہیں  ہوسکتی تھی۔
شیما شکایتوں کے ساتھ بولے جارہی تھی اور میں شرمندہ ہوئے جارہا تھا۔ میرے اس سوال پر کہ آپ لوگ راتوں کو سڑکوں اور چوراہوں پر کیوں کھڑے ہوکر گناہ کی دعوت دیتے ہیں بندیا تقریباً چیخ پڑی،اس کے کان سرخ ہوچکے تھے ،آنکھیں نم تھیں مگر خون اتر آیا تھا کہنے لگی ہم کیوں کھڑے ہونگی؟کیا ہمیں اپنی عزت پیاری نہیں ؟کیا ہمیں اچھا لگتا ہے کہ اس طرح کے گند ے کاموں کیلئے خود کو پیش کرنا ؟ہمیں آپ لوگوںنے یہ سب کرنے پر مجبور کیا ہے۔آپ جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو سڑک پر چلتی گاڑی روک کر ہمیں دعوت دیتے ہیں۔گاڑی میں بٹھاتے ہیں،غلط کام پر مجبور کرتے ہیں۔ہم کام مانگتے ہیں تو غلط کام کی ہی پیشکش کی جاتی ہے۔ہمارا بھی پیٹ ہے ،ہمیں بھی بھوک لگتی ہے،ہم مجبور ہوجاتے ہیں اور پھر نجانے کیا کچھ کرگزرتے ہیں۔یہ معاشرہ جو شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے یہ ہے ہمارا مجرم۔ہمارا کیا قصور ؟جب آپ جیسے شریف لوگ ہماری طرف  اچٹتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ان میں کہیں ہمیں باپ ،بھائی کی محبت اور پیار نظر نہیں آتا ،ہمیں تو بس ہوس اور لالچ ہی نظر آتی ہے۔
شیمابہت غصے میں تھی ۔وہ بولے جارہی تھی اور میں شرمندگی کی وجہ سے زمین میں گڑھا جارہا تھا۔واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ ان بے بس خواجہ سرائوں کے مجرم ہم ہی ہوں۔میں ،میرا معاشرہ ،اس کے والدین ،بہن بھائی اور یہ شرافت کا لبادہ اوڑھا سماج۔جب ہم انہیں شرافت کی زندگی نہیں دینگے تو پھر یہ کیا کرینگے ؟ہمیں سوچنا ہوگا۔ہمیں انہیں عزت اور احترام دینا ہوگا۔سوچیئے اور اپنی رائے بھی دیجئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: