کراچی (صلاح الدین حیدر)کراچی کے عوام پر جیسے اوس پڑ گئی ہو۔ سخت کرب میں مبتلاہیں کہ آخر ان کا پرسان ِ حال کون ہوگا۔ کیا کراچی لاوارث ہوجائے گا۔ مہاجروں یا اردو بولنے والے کس کی طرف دےکھےں۔عمران خان نے ےہ کہہ کر کہ وہ کراچی کی بھرپور دےکھ بھال کریں گے، کراچی تحریک انصاف کا شہر ہے، نے بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ عوام تو عوام خود ایم کیو ایم کے تنظیم کے بانی الطاف حسین نے کچھ ڈانٹ ڈپٹ، کچھ پیارومحبت سے انہیں اےک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی شکل میں نئی زندگی بخشی تھی۔ الزامات تو بہت لگے، قتل و غارت گری، بھتہ خوری، بد عنوایوں اور منی لاڈرنگ کی لیکن الطاف کا طریقہ منفرد تھا ۔ ان کے مداح اور پارٹی ورکرز لاکھوں میں تھے، سب کو تو وہ نہیں جانتے تھے لےکن جب بھی کسی ورکرز کے گھر ان کے عزیز و اقارب کی موت ہوتی، ےا شادی کے شادیانے بجنے کی خبر ملتی ۔انہوں نے تعزیت کرنے میں اےک منٹ کی تاخیر نہیں کی۔ اہل خانہ سے ہمدردی کے دو بول بول دئےے۔ ورکرز اپنے قائد کی آواز سن کر خود کو خوش نصیب سمجھنے لگتا تھا۔ ظاہر ہے۔ےہی امتیازی طرز زندگی تھا جو کسی اور دوسری سیاسی پارٹی میں نہیں پایا گیا۔ شروع شروع میں تو پڑھا لکھا، تعلیم یافتہ، طبقہ ، ےہ وہ لوگ جنہیں باشعور شمار کیا جاتاہے، ایم کیو ایم کے ساتھ آنے سے گریز کرتے رہے لےکن جب اےک فضا مہاجروں کی حمایت اور ہمدردی کی چل پڑی تو 75سے 80فیصد لوگوں کی ہمدردیاں اور حمایت بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہوگئیں۔ظاہر ہے ان کے سارے خواب ٹوٹتے نظر آرہے ہیں۔ انہیں اپنے اپنے بچوں کے مستقبل سے متعلق فکر لاحق ہے۔ ایم کیو ایم نے انہیں شناخت دی تھی جو ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ذمہ داری خواہ فاروق ستار کی ہو ےا رابطہ کمیٹی کی، کراچی کرب کی حالت میں ہے۔سوال ےہ ہے کہ اگر ایم کیوایم اسی طرح تین چار ٹکڑوں میں بٹی رہی تو پھر کراچی کی 20قومی اسمبلی کی نشستوں پر کون کامیاب ہوگا۔ پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، سب ہی کراچی کی نشستیں حاصل کرنے کے لئے تک ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ جب خلا ءپےدا ہوگا تو کوئی تو پُر کرے گا۔ مسئلہ سارا ےہ ہے کہ کراچی ملک کے دوسرے علاقوں اور شہروں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی ڈائنامک، حدواربعہ ےہ جغرافیہ سمجھنے کے لئے وقت درکار ہے۔ ےہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز ہے۔ ملک کی آمدنی کا 67فیصد قومی خزانہ میں جمع کراتا ہے لےکن بدلے میں اس کو کچھ نہیں ملتا جس کا کہ وہ حق دار ہے۔ عمران خان کے نزدیک الطاف حسین کے زمانے میں کراچی میں خوف و ہراس کی فضاءقائم تھی خود ان کی پارٹی کے لوگ ڈاکٹر عارف علوی ، عمران اسماعےلی،علی زیدی، کو دھمکیاں ملتی تھیں، آج صورتحال میں تبدےلی آچکی ہے۔کراچی پُر امن شہر ہے، ےہ رات کے 3 بجے تک سڑکوں پر مورٹر کاریں، پھسلتی ہوئی رہتی ہیں۔ٹھےک ہے کہ کچھ نوجوان حال میں قتل ہوئے، لےکن جرائم کس ملک اور شہر میں نہیں ہوتا۔ہر شخص ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ کراچی کا والی و وارث کو ن ہوگا۔انتخابات کے بعد کیا صورتحال ہوگی۔ ٹوٹی، بکھری ایم کیو ایم، تو الےکشن جیتنے سے رہی۔ دعویٰ تو اب بھی ایم کیوایم میں لیڈران ےہی کرتے ہیں کہ ہمارے ووٹ بینک محفوظ ہیں۔ انتخابات میں جیت ہماری ہوگی، لےکن زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ مصطفی کمال اور ان کی پاک سر زمین پارٹی اےک طرف، فاروق ستار اور ساتھی ایک طرف، اور ایم کیو ایم پاکستان اور ہمدردیوں کا قافلہ بالکل دوسری سمت میں، تو پھر انتخابات جیتنا مشکل نہیں ہوگا اور تو اور کیا ہوگا۔اگر اب بھی ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی انتخابات جیتنے کی بات کرتی ہے تو اسے صرف خوش فہمی ہی کہا جاسکتاہے۔پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی، ےا پی ٹی آئی، ابھی اس پوزیشن میں نہیں کہ انتخابات میں سبقت حاصل کرسکیں۔ پی ٹی آئی کے پاس تو تنظیم تک نہیں۔ جماعت اسلامی بے شک متحد اور منظم ہے لےکن دینی جماعتوں کو ووٹ نہیںپڑتے۔ےہی تو لمحہ فکر ہے۔ اگر ایک جملہ میں جواب چاہےے تو ایم کیو ایم کے سارے دھڑوں کو اےک ہونا پڑے گا، تب ہی جا کر لوگوں میں اور ورکرز میں اعتماد واپس آئے گا۔ورنہ اللہ ہی کوغیب کا علم ہے۔