غیرملکی کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے اب چہرے کی شناخت لازمی
غیرملکی کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے اب چہرے کی شناخت لازمی
ہفتہ 13 دسمبر 2025 5:54
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
غیرملکی کرنسی کی خرید و فروخت کے وقت ہر شہری کی بائیومیٹرک اور فیشل ریکگنیشن کے ذریعے شناخت کی تصدیق لازمی ہو گی۔ (فائل فوٹو: آئی ٹی کرونیکلز)
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک بھر کی ایکسچینج کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ یکم جنوری 2025 سے غیرملکی کرنسی کی خرید و فروخت کرنے والے شہریوں کی بائیومیٹرک کے ساتھ ساتھ فیشل ریکگنیشن (چہرے کی شناخت) کے ذریعے بھی لازمی تصدیق کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی بھی شخص اگر غیرملکی کرنسی خریدنے یا منی ایکسچینج پر فروخت کرنے آئے گا تو اس کی بائیومیٹرک کے ساتھ ساتھ نادرا کے فیشل ریکگنیشن سسٹم کے ذریعے شناخت کی تصدیق بھی لازمی کی جائے گی۔
اس اقدام کا بنیادی مقصد ملک میں غیرقانونی کرنسی کے لین دین کی روک تھام کے ساتھ ساتھ نادرا اور سٹیٹ بینک کے پاس کرنسی خریدنے یا فروخت کرنے والے تمام افراد کا مکمل اور مستند ریکارڈ یقینی بنانا ہے۔
سٹیٹ بینک کی نئی ہدایات کیا ہیں؟
سٹیٹ بنک نے ایک باضابطہ سرکولر کے ذریعے ملک بھر کی تمام ایکسچینج کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ یکم جنوری 2025 سے وہ اپنی تمام برانچوں میں غیرملکی کرنسی کی خرید و فروخت کرنے والے ہر شہری کی مکمل شناخت کو لازمی طور پر یقینی بنائیں۔
اب اگر کوئی شخص پاکستانی کرنسی کے بدلے غیرملکی کرنسی خریدے یا غیرملکی کرنسی کے عوض پاکستانی روپے حاصل کرے، تو ہر صورت میں اس کی بائیومیٹرک اور فیشل ریکگنیشن کے ذریعے شناخت کی تصدیق لازمی ہو گی۔
منی ایکسچینجرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی تمام برانچوں میں ہائی ریزولوشن کیمرے نصب کریں جو نادرا کے سسٹم سے منسلک ہوں، تاکہ شناخت کے عمل کو فوری، محفوظ اور مؤثر بنایا جا سکے۔
موجودہ نظام اور اس میں تبدیلی
اس وقت منی ایکسچینجز بائیومیٹرک نظام پر عمل تو کر رہے ہیں، مگر اس میں کچھ نرمی موجود ہے۔ جیسے 2500 ڈالر تک کے بدلے پاکستانی روپے لیتے وقت شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں، جبکہ 2500 ڈالر سے اوپر صرف شناختی کارڈ کی کاپی لازمی ہے۔
اس کے علاوہ پانچ ہزار ڈالر سے زائد کی رقم کے لیے فنڈز کے ماخذ اور مقصد کی دستاویزات فراہم کرنا ضروری ہے۔ تاہم غیرملکی کرنسی خریدنے والے ہر شہری کے لیے بائیومیٹرک تصدیق اور متعلقہ دستاویزات پہلے ہی لازمی تھیں۔
اب سٹیٹ بینک چاہتا ہے کہ ہر قسم کے کرنسی کے لین دین، رقم کی حد سے قطع نظر، پر بائیومیٹرک اور فیشل ریکگنیشن دونوں لازمی ہوں۔
ظفر پراچہ کے مطابق ایکسچینج کمپنیاں پابند ہیں کہ وہ سٹیٹ بینک کی ہدایات پر عمل کریں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
’بعض افراد بغیر تصدیق کے کرنسی لے جاتے ہیں‘
اس معاملے پر چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ گذشتہ چند برسوں سے غیرملکی کرنسی حاصل کرنے والے تمام افراد کی بائیومیٹرک تصدیق کی جا رہی ہے، لیکن سسٹم کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے بعض شہریوں کی تصدیق مکمل نہیں ہو پاتی تھی۔
ان کے مطابق ’کچھ افراد اپنے انگوٹھے کے نشانات پر ایسی ’ٹریٹمنٹ‘ کر لیتے ہیں کہ بائیومیٹرک تصدیق ممکن نہیں رہتی، اورپھر وہ بغیر تصدیق کے کرنسی لے جاتے ہیں۔ فیشل ریکگنیشن اس خلا کو مکمل کرے گی اور ہر شہری کی شناخت کو یقینی بنائے گی۔‘
اُنہوں نے مزید بتایا کہ ’سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری ہدایات میں یہ واضح نہیں کہ یہ نظام صرف کرنسی خریدنے والوں کے لیے ہوگا یا فروخت کرنے والوں کے لیے بھی، اور نہ ہی کسی رقم کی حد کا ذکر ہے۔ جس پر ہم سٹیٹ بنک سے مزید وضاحت کی درخواست کریں گے۔‘
’لاگت اور تکنیکی لحاظ سے ایک چیلنج ہو گا‘
اسی طرح ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ بائیومیٹرک تصدیق پہلے سے ہی کی جا رہی ہے، تاہم اس میں جو مسائل پیش آ رہے ہیں، اس کا درست جواب صرف متعلقہ ادارے ہی دے سکتے ہیں۔
لیکن انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بائیومیٹرک کا موجودہ نظام بعض اوقات تکنیکی مسائل کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ نئے کیمرے لگانا اور انہیں نادرا کے سسٹم سے منسلک کرنا لاگت اور تکنیکی لحاظ سے ایک چیلنج ہو گا۔
منی ایکسچینجرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی تمام برانچوں میں ہائی ریزولوشن کیمرے نصب کریں جو نادرا کے سسٹم سے منسلک ہوں۔ (فائل فوٹو: سائرکس مانیٹرنگ)
ظفر پراچہ نے مزید کہا کہ 100 فیصد عمل درآمد کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں، تاہم ایکسچینج کمپنیاں پابند ہیں کہ وہ سٹیٹ بینک کی ہدایات پر عمل کریں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا نئی شرائط ہر قسم کی کرنسی اور مقدار پر لاگو ہوں گی، ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک نے اپنے سرکلر میں اس حوالے سے کچھ واضح نہیں لکھا۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ سٹیٹ بینک اسے ’اکراس دی بورڈ‘ نافذ کرنا چاہتا ہے۔
اسلام آباد کی بلیو ایریا مارکیٹ میں منی ایکسچینج کے کام کرنے والے عظیم حسین سٹیٹ بینک کی ان ہدایات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایسی سخت شرائط غیرقانونی گرے کرنسی لین دین کو فروغ دے سکتی ہیں، کیونکہ لوگ وہاں جائیں گے جہاں یہ شرائط لاگو نہ ہوں۔ دوسری جانب ہر منی ایکسچینج کے لیے مہنگے ہائی ریزولوشن کیمرے نصب کرنا بھی آسان نہیں ہو گا۔