ٹرانسپورٹرز کی ملک گیر ہڑتال سے اشیا کی ترسیل متاثر، ’کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے‘
جمعہ 12 دسمبر 2025 20:07
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
’پنجاب کی فیکٹریوں میں ہزاروں ٹن کینو پڑا پڑا خراب ہو رہا ہے۔ ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے باعث ایک بھی گاڑی ملک کے اندر یا بیرونِ ملک نہیں نکل پا رہی۔ روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔‘
یہ الفاظ کینو کی اندرون و بیرون ملک تجارت کرنے والے حاجی عبداللہ کے ہیں جو پنجاب سمیت ملک بھر میں گڈز ٹرانسپورٹرز کے ہڑتال کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔
آل پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ الائنس نے پنجاب میں ٹریفک کے نئے قوانین کے تحت بھاری جُرمانوں اور دیت کی سخت شرائط کے خلاف پانچ دنوں سے ہڑتال کر رکھی ہے۔
اس ہڑتال کی وجہ سے خوراک اور روزمرہ ضرورت کی اشیا کی ترسیل بند ہے اور اِس کے نتیجے میں ملک بھر میں سپلائی چین کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
روزمرہ اشیا کی ترسیل بند ہونے سے منڈیوں میں قِلت بڑھ گئی ہے۔ احتجاج نے خاص طور پر کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کوئٹہ اور پشاور کی سبزی اور فروٹ منڈیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔
کئی منڈیوں میں مقامی پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں گِر گئی ہیں جبکہ غیرمقامی پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل رُکنے کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔اسی طرح عام استعمال کی اشیا کی ترسیل رُکنے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سرگودھا میں موجود کینو کے بڑے ایکسپورٹر حاجی عبداللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور سرحد کی مکمل بندش سے پہلے ہی افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک تجارت معطل تھی اور ہمارا بہت نقصان ہو چکا تھا۔
ان کے مطابق ’ہم نے متبادل طور پر تفتان کے راستے ایران سے وسطی ایشیا تک کینو کی برآمد دوبارہ بحال کی ہی تھی کہ ملک بھر میں ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال شروع ہو گئی۔‘
حاجی عبداللہ نے بتایا کہ پنجاب کی فیکٹریوں میں ایکسپورٹ کے لیے تیار ہزاروں ٹن کینو ٹرکوں میں لدا خراب ہو رہا ہے اور روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
’تفتان سرحد ہو یا اندرون ملک یا کراچی پورٹ کہیں بھی لوڈنگ نہیں ہو رہی نتیجتاً برآمد مکمل بند ہے اور درآمد بھی متاثر ہے۔‘
ان کے مطابق ’متحدہ عرب امارات، ایران، عراق، آرمینیا، آذربائیجان، قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان سمیت کئی ممالک کے آرڈرز تیار پڑے ہیں لیکن ترسیل رُکنے کی وجہ سے پھل خراب ہو رہے ہیں۔ اگر ہڑتال جلد ختم نہ ہوئی تو نقصان مزید بڑھ جائے گا۔‘
’افغانستان کا راستہ بند ہونے کے بعد لاگت پہلے ہی بڑھ گئی تھی جہاں پہلے اُزبکستان اور تاجکستان کی سرحد تک ایک ٹرک پر 10 لاکھ روپے خرچ آتا تھا اب متبادل راستوں سے یہی لاگت 40 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ٹرانسپورٹرز کی موجودہ ہڑتال نے صورتِ حال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔‘
کوئٹہ کی فروٹ منڈی میں ایران سے سیب درآمد کرنے والے تاجر حاجی حیات اللہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف کوئٹہ میں سیب سے لدے 24 ٹرالر کھڑے ہیں جن کے خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر کنٹینر میں 80 سے 90 لاکھ روپے کا مال موجود ہے۔ تاجر روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا رہے ہیں مگر ترسیل رُکنے کے باعث کچھ نہیں کر پا رہے۔‘
حاجی حیات اللہ کہتے ہیں کہ ’سبزی اور پھل خراب ہونے والی اشیا ہیں، تاخیر سے نہ صرف وزن اور معیار متاثر ہو رہا ہے بلکہ قیمتیں بھی گِر رہی ہیں۔‘
ٹرانسپورٹرز کی جانب سے یہ ہڑتال ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ٹریفک کے نئے قانون ’موٹر وہیکل آرڈیننس 2025‘ کے خلاف کی جا رہی ہے۔
اس احتجاج میں نہ صرف پنجاب بلکہ باقی صوبوں کی گڈز ٹرانسپورٹ تنظیمیں بھی شامل ہیں جنہوں نے ’آل پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ الائنس‘ کے نام سے اتحاد بنایا ہے۔
یہ اتحاد 8 دسمبر سے ہڑتال پر ہے جو اب پانچویں روز میں داخل ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹرز نے اپنے ٹرک، مزدا گاڑیاں، ٹرالر اور بھاری سامان کی ترسیل کرنے والی بڑی گاڑیاں پارکنگ، گوداموں، ہوٹلوں یا پھر سڑک کنارے کھڑی کر دی ہیں اور لوڈنگ اور اَن لوڈنگ مکمل طور پر بند کردی ہے۔‘
بلوچستان ٹرک گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے رہنما نُور احمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ اس قانون کا اطلاق صرف پنجاب تک محدود ہے مگر پنجاب ٹرانسپورٹ کا مرکز ہے جہاں ملک بھر کے ٹرانسپورٹرز کی گاڑیاں بھی چلتی ہیں اور سب اس نئے قانون سے متاثر ہو رہے ہیں اس لیے ہم سب مل کر احتجاج کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہلے اوورلوڈنگ یا دوسری کسی خلاف ورزی پر دو سے تین ہزار روپے جُرمانہ کیا جاتا تھا، اب 30 سے 40 ہزار روپے جُرمانہ ہو رہا ہے۔ یہ جُرمانے حد سے زائد اور ناقابل برداشت ہیں۔‘
’حکومت کی جانب سے دیت کے قانون کی سخت شرائط بھی لاگو کی جا رہی ہیں اور بھاری جُرمانے رکھے جا رہے ہیں۔اب کسی حادثے میں موت ہونے کی صورت میں 96 لاکھ روپے ادا کرنے کی شرط رکھی گئی ہے اور اس کی ادائیگی تک ڈرائیور کی ضمانت تک نہیں ہوگی۔‘
انہوں ںے مزید بتایا کہ ’بات بات پر ٹرکوں کو جُرمانے کرنا اور بند کرنا، ڈرائیوروں پر تشدد اور گرفتار کرنے کی وجہ سے ہمارے لیے پنجاب میں ٹرانسپورٹ چلانا مشکل ہو گیا ہے، اس لیے ہم اس احتجاج میں پنجاب کے گڈز ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ہیں۔‘
لاہور سے اردو نیوز کے نمائندے رائے شاہنواز کے مطابق پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھاری جُرمانوں کے خلاف ٹرانسپورٹرز کا تنازع نومبر 2025 کے آخر میں شروع ہوا جب صوبائی حکومت نے موٹروہیکل آرڈیننس 2025 نافذ کیا۔
اس آرڈیننس کے تحت سادہ خلاف ورزیوں جیسے تیز رفتاری، غلط پارکنگ یا ہیلمٹ نہ پہننے پر 2 ہزار سے لے کر 20 ہزار روپے تک جُرمانہ عائد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘
یہ اقدام سڑکوں پر حادثات کم کرنے اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اٹھایا گیا مگر ٹرانسپورٹرز نے اسے مہنگائی، ایندھن کی قیمتوں اور کاروباری دباؤ کے دور میں ناقابلِ عمل قرار دیا۔
ٹرانسپورٹرز نے جُرمانوں کی شرح کم کرنے اور ٹریفک پولیس کی مبینہ کرپشن کو روکنے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر ہڑتال شروع کردی۔
لاہور، راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد جیسے پنجاب کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ سروسز معطل ہونے سے مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہڑتال کے پہلے دن ہی حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں پبلک ٹرانسپورٹ کی یونینز نے شام تک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا کہ نئے قانون پر عمل درآمد 15 دن کے لیے معطل ہو گیا ہے، تاہم وزیراعلٰی مریم نواز نے آرڈیننس کے واپس لیے جانے کی خبروں کی فوری تردید کی جس سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوگئی۔
اس ابہام نے صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا ہے کیونکہ مقامی میڈیا پر ٹرانسپورٹرز اور حکومت کے متضاد بیان چلتے رہے۔
اس دوران گڈز ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن نے الگ سے غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا اعلان کر دیا جو 12 دسمبر کو پانچویں دن میں داخل ہو گئی۔
ہڑتال کی وجہ سے گڈز ٹرانسپورٹرز نے صوبے بھر میں ہزاروں ٹرکوں اور کنٹینرز کو سڑکوں پر روک دیا ہے جس سے برآمدات اور سپلائی چین شدید متاثر ہوئی ہے۔
یہ احتجاج ملک بھر میں پھیل چکا ہے اور اس کے ملکی معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سپلائی چین مکمل طور پر معطل ہونے سے ہزاروں ٹرک اور کنٹینرز کھڑے ہیں اور روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
اس احتجاج سے ایکسپورٹرز کو بین الاقوامی آرڈرز منسوخ ہونے کا خطرہ لاحق ہے جبکہ دیہی اور شہری علاقوں تک ضروری سامان کی رسائی رُک گئی ہے۔
ٹرانسپورٹرز نے الزام لگایا ہے کہ پنجاب میں پولیس ٹرکوں کو معمولی معمولی بات پر بند کر رہی ہے، بھاری چالان کر رہی ہے اور کئی ڈرائیوروں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
ادھر لاہور میں تاجر اور ٹرانسپورٹرز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت ہڑتال ختم کرانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے، ڈرائیوروں کو گرفتار اور مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
لاہور کے تاجر نعیم میر نے ٹرانسپورٹرز کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے مسائل حل نہ کیے تو تاجر بھی اپنا کاروبار بند کردیں گے۔
مِنی مزدا ٹرک ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری تنویر کا کہنا ہے کہ ہم جلسے یا توڑ پھوڑ نہیں کر رہے اور نہ ہی سڑکیں بند کررہے ہیں، اپنی گاڑیاں کھڑی کی ہیں مگر اس کے باوجود حکومت ہڑتال ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ لاہور، کراچی اور باقی شہروں کے تاجر بھی ہمارے احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ احتجاج کی وجہ سے بندرگاہیں بند پڑی ہیں، گودام خالی ہو رہے ہیں، صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں، ادویات کی ترسیل بھی رُک گئی ہے، اشیا کی قِلت پیدا ہوگئی ہے اور اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے مگر حکومت کو احساس نہیں ہے۔
چوہدری تنویر نے کہا کہ ہم روڈ سیفٹی قوانین کے حق میں ہیں لیکن جُرمانوں کی شرح کم کی جائے، جب تک آرڈیننس واپس نہیں ہوتا،گڈز ٹرانسپورٹ نہیں چلے گی۔
