Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانو نی فیصلے عدالتوں کے بجائے عوامی جلسوں میں ہونگے؟

  کراچی ( صلاح الدین حیدر )آج کل گھر گھر چرچا ہے کہ آخر نواز شریف اور صاحبزادی مریم کو نواز اتنی چھوٹ کیوں دے دی گئی ہے کہ وہ جو عدالت ِ عظمیٰ کے ججوں کے خلاف زہر اگلتی رہی۔ سپریم کورٹ محض خاموش تماشائی بنی سارا کچھ دےکھتی رہی۔اگر ایسا ہی چلتا رہے تو انصاف کا قلم دان اےک دن دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گاپھر مملکت پاکستان سے انصاف کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کچھ لوگوں کا ےہ بھی کہنا ہے کہ چیف جسٹس اور ساتھی صرف وقت کے انتظار میں ہیں کہ کب لوہاگرم ہو اور وہ فیصلہ کن چوٹ لگائےں۔ اس کا مطلب تو ےہ ہوا کہ ےہ کسی نا کسی بہت بڑے طوفان کا پےش خیمہ ہے۔ عام خیال ےہی ہے کہ جج صاحبان تحمل اور بُرد باری سے سب کچھ برداشت کررہے ہیںکہ دےکھیں نواز شریف اور مریم کس حد تک جاتے ہیں۔ شاید ان کا مقصد ےہ بھی ہو کہ رسی جتنی دراز کرنی ہو کردی جائے پھر اےک دن یوم حساب کا مقرر کرکے ایسا فیصلہ سنایا جائے کہ آئندہ کسی کی ہمت نہ ہو ۔ مانسہرہ میں مریم نے ور کرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا کچھ نہیں کہا۔ چیف جسٹس کا نام لے کر للکارا کہ اگر انہوں نے چور،ڈکیتوں، سسلین مافیہ اور ان جیسے القابات سے ان کے والد کو نوازنے کا سلسلہ بند نہیں کیا تو پھر انہیں بھی انہی الفاظ میں جواب دیا جائے گا جو زبان وہ بول رہے ہیں، آپ اب وہی کچھ سنیں گے جو آپ اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں، گویا عدالت نہ ہوئی ، تماشا گھر ہوگیا۔ ساری دنیا کے مہذب ممالک میں عدالت عالےہ اور عدالت عظمیٰ کے بارے میں نا مناسب الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کیا جاتاہے۔ عدالت کی بے توقیری کرنا بذات خود ایک جرم ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق عدالتوں کے فیصلے پر تو تنقید کی جا سکتی ہے۔لےکن مہذب اندازمیں لےکن ججوں کی شان میں کوئی غلط لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لےکن مملکت ِ پاکستان میں تو ہمیشہ سے اُلٹی گنگا بہتی رہی ہے۔ اب توبات گالم گلو چ تک پہنچ گئی ہے۔ کچھ اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ عدالت عظمیٰ جس کے حکم پر پانا مہ لیکس کا کیس وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تقریباً 6ماہ چلا۔ بالآخر انہیں اےک غیر ملک کا اقامہ رکھنے پر نا اہل قرار دے کر منصب اعلیٰ سے ہٹا دیا گیا کہ وہ کوئی بھی حکمران سوائے اپنی ملک کی انتظامیہ چلانے کے کوئی اور کام اور وہ بھی کسی بیرون ملک میں نہیں کرسکتا۔فیصلہ بالکل صحےح تھا، اس پر تنقید ضرور ہوئی لےکن عدالت کا فیصلہ اٹل ہوتاہے اور ہر ایک کو اس کے آگے سرِخم تسلیم کرنا پڑتاہے۔نواز نے ایسا کرنے کی بجائے عوام الناس کو بغاوت پر اکسایا اور آج بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ عوام نے ےہ فیصلہ مسترد کردیا ہے۔سوال ےہ ہے کہ کیا قانونی فیصلے عدالتوں کی بجائے کیا جلسہ عام میں کئے جائیں تو پھر عدالتوں، قوانین، آئین، کی ضرورت ہی نہیں۔کل کوئی چور، ڈاکو قاتل جرم کرکے عدالتوں کے آگے اےک جم غفیرلے کر کہے گا کہ میں تو عدالتوں کو نہیں مانتا۔ میرے ساتھ عوام ہیں ےہی میرا فیصلہ صادر کریں گے۔قانون کی کتابیں تو پھر دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ جنگل کا قانون ملک میں چلے گا، تو پھر کون کسی کی داد رسی کرے گا اور کیسے؟نواز شریف اور مریم نے اب تو تمام حدود ےا جسے انگلش میں کہتے ہیں ریڈ لائن عبور کرلی ۔قانونی نقطہ نظر سے دےکھا جائے تو وہ قومی مجرم ہیں۔ مملکت اور ملک میں بسنے والوں کی زندگی کو تباہی اور بربادی کی سمت موڑ دیا ۔ سوائے ہیجان کے اور کیا ہوگا، لوگ کیا لاٹھیوں ، ڈنڈوں ، چھریوں ، بلّوں،نے تناعات کا فیصلہ کریں گے، معاشرے کا کیا بنے گا، سزا اور جزاءکا تصور تو خاک میں مل جائے گا۔ سڑکوں پرجھگڑے فساد ہوں گے، قتل و غارت گری ، جرائم کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا، ےہ باپ بیٹی ملک کو کس راہ پر لے جارہے ہیں۔ قانون میں ماہرین سے گفتگو کے بعد اندازہ ےہی ہوتاہے کہ بجائے توہین عدالت کے شریف خاندان کے اہل خانہ کو کرپشن کی بنیاد پر سزا دی جائے تاکہ وہ مجرم مانے جائیں۔ قانونی احتسا ب بیورو نے کئی اےک نئے جرائم کی فہرست تیار کر کے سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دی ۔ ظاہر ہے اب اس پر مقدمہ چلے گا پھر سزائیں۔ اب انہیں ثبوت دینے پڑےں گے یا پھر جیل کی کال کوٹھڑی ان کاانتظارکررہی ہے۔ عدالت عظمیٰ خامو ش ضرور ہے لےکن اندھی اور بہری نہیں، اسے اپنی ذمہ داریوں کا بھرپور احساس ہے۔ آنے والے دنوں میں شاید کوئی بہت بڑا بھونچال اٹھ کھڑا ہو۔
 

شیئر: