اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پرسنل بیگج سکیم کے تحت گاڑیاں درآمد کرنے کی سہولت ختم، نئی پالیسی کیا ہے؟
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پرسنل بیگج سکیم کے تحت گاڑیاں درآمد کرنے کی سہولت ختم، نئی پالیسی کیا ہے؟
جمعرات 11 دسمبر 2025 5:23
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں نئی پالیسی کی منظوری دی گئی۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سمندرپار پاکستانیوں کے لیے پرسنل بیگج سکیم کے تحت گاڑیاں درآمد کرنے کی سہولت کو ختم کر دیا ہے، جبکہ ٹرانسفر آف ریزیڈنس اور گفٹ سکیم کے تحت گاڑیوں کی درآمد کی پالیسی کو مزید سخت کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ گذشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کیا گیا، جس میں وزارتِ کامرس نے تجویز پیش کی تھی کہ پرسنل بیگج سکیم ختم کر دی جائے اور صرف گفٹ اور ٹرانسفر آف ریزیڈنس سکیم کے تحت ہی گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
اب نئی پالیسی کے تحت صرف ٹرانسفر آف ریزیڈنس اور گفٹ سکیم کے مطابق ہی سمندر پار پاکستانی بیرونِ ملک سے گاڑیاں پاکستان لا سکیں گے۔ اس کے ساتھ نئے طریقۂ کار کے تحت کمرشل امپورٹ کے سکیورٹی اور ماحولیاتی معیار ہی ان دونوں سکیموں پر لاگو ہوں گے۔ یعنی اوورسیز پاکستانیوں کی بھی گاڑیوں کی امپورٹ کا پری شپمنٹ معائنہ لازمی ہوگا، جس میں یہ یقینی بنایا جائے گا کہ گاڑیاں ایکسیڈنٹل (حادثاتی) نہ ہوں اور ماحولیاتی معیار کے مطابق ماحول دوست ہوں۔
گفٹ اور ٹرانسفر آف ریزیڈنس سکیم میں کیا تبدیلیاں لائی گئیں؟
حکومت نے بیرونِ ملک سے گاڑی لانے کی پالیسی کو مزید سخت کرتے ہوئے درآمد کرنے کی درمیانی مدت کو دو سال سے بڑھا کر تین سال کر دیا ہے، پہلے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کم از کم دو سال رہائش کے بعد گاڑی پاکستان لا سکتے تھے، لیکن اب اس مدت کو تین سال کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ درآمد کی گئی گاڑی ایک سال تک کسی دوسرے شخص کے نام پر منتقل نہیں کی جا سکے گی۔
اب یہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ٹرانسفر آف ریزیڈنس سکیم کے تحت درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی تصدیق کی جائے کہ وہ اسی ملک سے بھیجی گئی ہیں جہاں بھیجنے والا شخص مقیم ہے۔ یعنی اگر کوئی برطانیہ میں رہتا ہے تو گاڑی بھی برطانیہ سے ہی امپورٹ ہونی چاہیے، کسی تیسرے ملک سے نہیں۔ یہ پابندی گفٹ سکیم پر لاگو نہیں ہوگی۔
تاجروں کے لیے صرف کمرشل امپورٹ کی اجازت ہوگی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اردو نیوز نے گاڑیوں کی درآمد کی پالیسیوں میں تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے آٹوموبائل شعبے کے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومت نے یہ پابندی کیوں لگائی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف میاں شعیب احمد نے پرسنل بیگج سکیم کو ختم کرنے اور گفٹ سکیم اور ٹرانسفر آف ریزیڈنس سکیم کے تحت گاڑیوں کی امپورٹ کو سخت کرنے کے اقدامات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ماضی میں سمندرپار پاکستانیوں کے لیے موجود تینوں سکیموں کے بعض غلط استعمال کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ بعض تاجر ان سکیموں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے، پیسے ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجتے اور پھر بینکنگ چینلز کے ذریعے واپس ملک میں لاتے تھے۔
میاں شعیب احمد کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ تھا کہ گاڑیوں کی درآمد کو شفاف بنایا جائے تاکہ ٹیکس چوری نہ ہو اور جو تاجر کاروبار کرتے ہیں وہ بینکنگ چینلز کے ذریعے کریں۔ اس سے گرے ایریا کم ہوگا اور حکومت کو ضروری ٹیکس وصول ہو سکے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سمندرپار پاکستانی ان اقدامات سے متاثر ہوں گے، انہوں نے بتایا کہ اوورسیز کے لیے دو سکیمیں برقرار ہیں اور وہ انہی کے تحت گاڑیاں درآمد کر سکیں گے۔ تاہم تاجروں کے لیے صرف کمرشل امپورٹ کی اجازت ہوگی، اور ہر قسم کی درآمد شدہ گاڑی کا پری شپمنٹ معائنہ اور معیار کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے۔
ان کے خیال میں سمندرپار پاکستانیوں کے لیے بیرونِ ملک کم از کم تین سال رہنے کی شرط اس لیے رکھی گئی ہے کہ اب مارکیٹ میں گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کا آپشن موجود ہے، اور جو لوگ جلدی میں گاڑی درآمد کرنا چاہتے ہیں وہ کمرشل امپورٹ کے تحت گاڑی لے سکتے ہیں۔
نئی پالیسی کے تحت گاڑیوں پر تقریباً 40 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسی طرح معروف پاکستانی آٹوموبائل ایکسپرٹ مہران خان سیگل، جو پاک گیئر کے نام سے گاڑیوں کے ریویو کے حوالے سے ایک بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی چلاتے ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کا یہ اقدام بنیادی طور پر بلیک مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے مثبت ہے، کیونکہ ماضی میں لوگ اپنے پاسپورٹ ڈیلروں کو بیچ دیتے تھے، اور وہ انہی پاسپورٹس کے ذریعے گفٹ سکیم اور ٹرانسفر آف ریزیڈنس سکیم کے تحت گاڑیاں درآمد کر کے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔
مہران خان کے مطابق اس اقدام کا اصل اوورسیز پاکستانیوں پر کوئی منفی اثر نہیں ہوگا کیونکہ وہ دونوں موجودہ سکیموں کے تحت اپنی گاڑیاں بلا کسی رکاوٹ درآمد کر سکیں گے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ’اب چونکہ ہر قسم کی امپورٹ پر کمرشل امپورٹس کے معیار لاگو ہوں گے اس لیے گاڑیوں پر تقریباً 40 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔‘