Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سخت قوانین اور خطرناک راستے: 2025 میں یورپ جانے کے خواہش مند سینکڑوں پاکستانی سمندر کی نذر

سنہ 2025 غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کے لیے کڑے امتحانات اور جان لیوا حادثات سے بھرا سال ثابت ہوا۔ 
یہ سال سمندر میں ڈُوبنے، صحراؤں میں گُم ہو جانے اور انسانی سمگلروں کے ہاتھوں لُٹ جانے والے پاکستانیوں کی درد ناک کہانیوں سے بھرا ہے۔
رواں برس پاکستان بھر کے اُن گھرانوں کے اہلِ خانہ شدید دُکھ، اِضطراب اور پریشانی سے دوچار رہے جنہوں نے اپنی جمع پونجی خرچ کر کے اپنے بچوں کو ’بہتر مستقبل‘ کے خواب کی تلاش میں رُخصت کیا تھا۔ 
عالمی اداروں، یورپی بارڈر فورسز اور پاکستانی حکام کے سالانہ اعدادوشمار یہی بتاتے ہیں کہ 2025 میں یورپ پہنچنے کے غیرقانونی راستے پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک، بے رحم اور جان لیوا بن چُکے ہیں۔
سنہ 2025 کے آغاز میں ہی بحرِاوقیانوس میں پیش آنے والا اندوہناک سانحہ پاکستانی خاندانوں کے لیے ایک ایسا زخم چھوڑ گیا جو برسوں بھر نہیں سکتا۔ 
جنوری میں مغربی افریقہ کے ساحل سے یورپ کی طرف جانے والی کشتی میں کم سے کم 44 پاکستانی اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے سمندر میں ڈُوب گئے جبکہ متعدد ہمیشہ کے لیے لاپتا ہو گئے۔ 
سنہ 2025 کے وسط میں لیبیا کے ساحل کے قریب پیش آنے والے ایک اور سانحے میں قریباً 65 افراد لے جانے والی کشتی ڈُوب گئی، جس میں 16 پاکستانیوں کے مرنے کی تصدیق کی گئی جبکہ کئی تاحال لاپتا ہیں۔ 
بین الاقوامی تنظیم ’آئی او ایم‘ کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق صرف چند ہفتوں کے دوران ہی 478 تارکینِ وطن کو لیبیا کے ساحل سے آگے سمندر میں جانے سے روک کر واپس حراستی مراکز میں منتقل کیا گیا۔ 
ان میں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی شامل تھے جنہیں انسانی سمگلروں نے ’یورپ بس ایک دن کی دُوری پر‘ ہونے کا جُھوٹا خواب دکھا کر دھوکے سے کشتیوں میں سوار کیا تھا۔ 
ادارے کے مطابق 2025 کے دوران مجموعی طور پر 25 ہزار 764 افراد کو بحیرۂ روم میں روکا گیا، جنہیں بعدازاں لیبیا واپس منتقل کر دیا گیا جن میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

رواں برس پاکستانیوں سمیت 25 ہزار 764 افراد کو بحیرۂ روم میں روک کر واپس لیبیا منتقل کیا گیا (فائل فوٹو: روئٹرز)

عالمی اندازوں کے مطابق 2025 میں یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہلاک یا لاپتا ہونے والوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار 328 سے بھی زیادہ رہی۔ 
صرف بحیرۂ روم اور صحرائے لیبیا میں ایک ہزار 189 افراد کی ہلاکتیں یا گمشدگیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں متعدد پاکستانی نوجوان بھی شامل تھے۔ 
یہ وہ افراد تھے جنہوں نے پاکستان میں بے روزگاری، تعلیم کی کمی، غُربت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور بہتر مستقبل کی خاطر ایسے راستوں کا انتخاب کیا جن پر منزل تک پہنچنے کی ہرگز کوئی ضمانت نہیں تھی۔
اسی عرصے میں سمندری راستے پر پکڑے گئے اور واپس لیبیا بھیجے گئے تارکینِ وطن کی مجموعی تعداد 25 ہزار 764 تک پہنچ چکی ہے۔ 
یہ اعدادوشمار گذشتہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ 2024 میں یہ تعداد 21 ہزار 762 اور 2023 میں 17 ہزار 190 ریکارڈ کی گئی تھی۔ 
یہ اعدادوشمار واضح طور پر بتاتے ہیں کہ خطرناک سمندری اور غیرقانونی راستوں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے راستے اختیار کرنے والے افراد میں بھی بڑی تعداد پاکستانی شہریوں کی ہے۔ 

سنہ 2025 میں ہزاروں پاکستانیوں کو غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کے دوران حراست میں لیا گیا (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

سنہ 2025 پاکستانیوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے بھی غیرمعمولی سال ثابت ہوا۔ اٹلی، ہنگری، یونان، کروشیا، سربیا اور مشرقی یورپ کے مختلف ملکوں میں ہزاروں پاکستانیوں کو سرحد پار کرنے کی کوشش کے دوران حراست میں لیا گیا۔ 
یورپ جانے کی کوشش میں بے شمار پاکستانیوں نے بھوک، پیاس، مارپیٹ، لُوٹ مار، زیادتی، حراستی مراکز میں مہینوں قید اور تشدد جیسے حالات برداشت کیے۔ 
اس ساری صورتِ حال نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ غیرقانونی راستوں کی حقیقت صرف ’یورپ کے خواب‘ تک محدود نہیں بلکہ ان راستوں میں زندگی، موت، تاریکی، استحصال اور ٹُوٹے خوابوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
پاکستان کے گھروں میں بیٹھے ایسے والدین، جو اپنے بچوں کو روشن مستقبل کی خاطر رُخصت کرتے ہیں لیکن اِن میں سے اکثریت کو اپنی منزل نہیں ملتی۔
کچھ کی لاشیں وطن واپس آتی ہیں، کچھ برسوں لاپتا رہتے ہیں، اور کچھ کی کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ ان گھروں کی مائیں زندگی کے آخری دن تک یہی دعا کرتی رہتی ہیں کہ شاید کسی روز دروازہ کھلے اور اُن کا بیٹا اندر داخل ہو جائے۔

 

شیئر: