Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک امریکہ چمن یونہی رہے گا !

***تحریر۔وسعت اللہ خان ***
1979ء  میں امریکہ میں ایک پاکستانی شہری کو دوہرے استعمال کے کچھ ایسے حساس آلات ا سمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتے تھے۔امریکی کانگریس میں ہاہا کار مچ گئی اور سمنگٹن ترمیم کے زریعے امریکی امداد کو اس بات سے مشروط کردیا گیا کہ جب تک یہ طے نہیں ہوتا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے تب تک بالخصوص فوجی امداد معطل۔پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اسی سال کرسمس کے دن سوویت فوجیں افغانستان میں اترنے لگیں اور سمنگٹن ترمیم اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔مزید کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کارٹر انتظامیہ کی جگہ ریگن انتظامیہ آگئی اور پاکستان کی فوجی حکومت سوویت خطرے کے خلاف امریکہ کے چہیتے ترین پارٹنرز کی فہرست میں راتوں رات آ گئی۔سی آئی اے آئی ایس آئی بھائی بھائی۔1982ء  میں40 ایف سولہ طیاروں کی پہلی ڈیل ہوئی۔ 
اگست1985ء میں ’’ جہادِ افغانستان ’’ عروج پر تھا اور آثار یوں نظر آنے لگے گویا سوویت خطرے کے طوفان کا رخ کامیابی سے موڑ دیا گیا ہو تو ایک بار پھر امریکی کانگریس کو پاکستان کے جوہری پروگرام  سے غیر پرامن ہونے کی بو آنے لگی اور سینیٹر لیری پریسلر نے سینیٹ سے ایک زیلی قانون منظور کروایا جس کے تحت امریکی صدر کو امداد کے نئے وعدے سے قبل پاکستان کے جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کی بابت ہر سال ایک توثیقی سند کانگریس میں جمع کرانا ہوگی۔ امریکی صدر نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے سالانہ سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کردیا۔ جیسے ہی گورباچوف نے افغانستان سے سوویت فوجوں کے مرحلہ وار انخلا کا اعلان کیا امریکہ نے بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کو ’’ ناقدانہ اور اصولی نگاہوں ’’  سے دیکھنا شروع کردیا۔1990ء  تک افغانستان سے امریکی دلچسپی سمٹنا شروع ہوگئی اور صدر بش سینئیر نے ’’ جوہری کیریکٹر سرٹیفکیٹ ’’ جاری کرنے سے معذرت کر لی۔ پریسلر ترمیم حرکت میں آ گئی اور پاکستان کی فوجی امداد معطل ہوگئی۔
  پاکستان نے اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے پیٹ کاٹ کاٹ کر مزید ایف16 خریدنے کے لئے جو پیسے امریکی طیارہ ساز ادارے لاک ہیڈ  کو دئیے وہ بھی پریسلر ترمیم کے سردخانے میں منجمد ہوگئے۔ امریکہ نے یہ رقم خاصی منت سماجت کے بعد بہت سارے ’’چارجز ’’ کاٹنے کے بعد توڑ توڑ کے بعد کے برسوں میں یوں واپس کی جیسے مقروض امریکہ نہ ہو پاکستان ہو۔
پاک امریکہ تعلقات کی خوبصورتی یہ ہے کہ جیسے ہی کسی سبب امداد معطل ہوتی ہے قومی غیرت جاگ پڑتی ہے۔امریکہ کی طوطا چشمی کے مرثئیے لکھے جاتے ہیں۔آئندہ واشنگٹن  کے دلفریب جال میں نہ پھنسنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا عہد کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی پرانی بلیک اینڈ وائٹ اردو فلموں کی طرح امریکی شہری بابو گاؤں کی گوری پر ایمان شکن مسکراہٹ پھینکتا ہے سادی حسینہ سب اگلا پچھلا  بھول بھال کے پھر سے چپر غٹو ہوجاتی ہے اور دونوں اس درخت سے اس درخت تک تنوں سے لپٹتے لپٹتے گاتے گاتے وادیوں میں گم ہونے لگتے ہیں۔
1995ء میں امریکی سینیٹ نے براؤن ترمیم منظور کی۔اس  کے تحت پاکستان کی محدود فوجی امداد بحال ہوگئی مگر ایف سولہ کی کھیپ لاک ہیڈ کے ہینگرز میں ہی زنگ آلود ہوتی رہی اور گودام کا کرایہ پاکستان کے زمے پڑتا رہا۔
پھر28 مئی1998ء  آ گیا۔پاکستان نے صدر بل کلنٹن کی جانب سے تمام ترغیبات ٹھکراتے ہوئے11اور 13ہ مئی کے5 ہندوستانی  جوہری دھماکوں کے جواب میں 6 دھماکے کئے۔امریکہ اور جاپان سمیت کئی ممالک نے یکلخت ہر طرح کی امداد بند کردی۔ پاکستان نے توڑ یہ نکالا کہ زرِ مبادلہ کے تمام نجی پاکستانی اکاؤنٹس منجمد کردئیے۔سعودی عرب نے لمبے ادھار پر تیل دینا منظور فرمایا اور نواز شریف حکومت نے ایک اور کشکول توڑ مہم کے تحت ’’ قرض اتارو ملک سنوارو ’’ کا نعرہ لگا دیا۔
اگلے ہی برس کارگل کی مہم جوئی گلے پڑ گئی اور بل کلنٹن کو بیچ میں ڈال کے صلح صفائی کروانا پڑ گئی۔ستمبر1999ء  میں شہباز شریف نے واشنگٹن کے دورے میں امریکی اعلی حکام کو سفارش ڈالی کہ فوج کو اقتدار پر قبضے سے روکنے کے لئے ’’ فرینڈلی وارننگ ’’ جاری کردیں اور امریکیوں نے ایک رسمی وارننگ جاری بھی کردی۔ اس سے پہلے کہ یہ طے ہوتا کہ کارگل کے تالاب میں دھکا کس نے دیا جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر1999ء  کو نواز شریف حکومت کو ’’ آ بیل مجھے مار ’’ کی پالیسی اپنانے پر فارغ کردیا۔مگر امریکی امداد بحال نہ ہو سکی۔
پھر مشرف کے لئے کرنا خدا کا ویسا ہی ہوا جیسا ضیا الحق کے لئے ہوا تھا۔ایک بار پھر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ نائن الیون کی شکل میں اسٹراٹیجک امداد اترنے کا موسم آ گیا۔۔پرانی بے وفائیوں پر مٹی ڈالنے کا وعدہ ہوا اور امریکہ اور پاکستان ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگے۔ 
اس دوران ڈما ڈولہ ، دتا خیل اور سلالہ کے سانحات ،  پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرونز کی کاروائی ، ریمنڈ ڈیوس کا آنا اور جانا ، ایبٹ آباد آپریشن ، میمو گیٹ ، پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوری کی موجودگی سمیت کئی شہتیر باہمی مفادات و ضروریات کی آنکھ میں باآسانی ڈوب گئے۔
اور پھر ٹرمپ آ گیا۔اور بورڈ لگ گیا ’’ پرانا ہوٹل نئی انتظامیہ کے ساتھ۔ادھار محبت کی قینچی ہے ، سیاسی گفتگو منع ہے ۔یہاں ملازموں کو روزانہ اجرت دی جاتی ہے  ’’۔حقانی نیٹ ورک  کو لگام نہ دینے کا معاملہ بھی بڑے سے ہاتھی میں بدل گیا اور اب پاکستان کو یہ بھی اطمینان دلانا ہو گا کہ اس کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں کہ نہیں۔یا تو ہر ادا پر فریفتگی اور ویہل پے ویہل نچھاور ہو رہی تھی یا اب یہ بھی برا لگ رہا ہے کہ آٹا گوندھتے وقت ہلتی کیوں ہے ؟
ایک بار پھر قومی غیرت جوش میں آ چکی ہے۔رکھو اپنے پیسے اپنے پاس  ہند امریکہ گٹھ جوڑ مردہ باد۔ہم پیروں پر کھڑے ہونا جانتے ہیں۔مگر تمہارے ہوتے اگر ہم اپنے پیروں پے کھڑے ہوگئے تو تمہیں اچھا لگے گا کیا ؟ 
 

شیئر: