Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقی تہذیب کی نشانی ،عورت کا احترام

عارف عزیز۔بھوپال
  ہندوستان میں مردم شماری سے متعلق اعداد و شمار کے مطابق بچوں کی پیدائش میں کمی کا رجحان ہے اور بچوں میں بھی لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب بری طرح گھٹ رہا ہے۔بیٹی کی پیدائش اور عورت کو بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ ترقی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود دنیا دورِ جاہلیت کی طرف پلٹ رہی ہے جب بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی کی پیدائش بے عزتی اور ہتک مانی جاتی تھی اور نوزائیدہ لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا۔دین اسلام نے دور جاہلیت کے اس استبداد کو ختم فرمایا اور ساری دنیا نے اسلام سے روشنی حاصل کی۔ اسلام نے بیٹیوں کی پرورش کرنے اور ان کا اچھے خاندان میں نکاح کرنے والے ماں باپ کو جنت اور جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں مقام ملنے کی بشارت عطا فرمائی ۔
مشرقی تہذیب کی نشانی عورت کا احترام ہے لیکن ہندوستان میں جو مشرقی تہذیب کا سب سے بڑا نمائندہ ملک ہے، وہاں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قبل از وقت پتا لگا کربیٹیوں کی پیدائش روکی جارہی ہے۔ اس طرح دنیا میں آنے سے قبل ہی بیٹی کا قتل کیاجا رہا ہے۔ یہ امر کسی حد تک خوش آئندہے کہ مودی حکومت نے بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿ مہم شروع کی ہے، اس مہم میں تمام مذاہب کے رہنماو¿ں کو رہبری کا فریضہ انجام دیتے ہوئے سرگرم حصہ لینا چاہئے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار اس تلخ حقیقت کا اظہار ہیں کہ ملک میں ماں باپ منصوبہ بند طریقے سے لڑکی کی پیدائش روک رہے ہیں حالانکہ پیدائش سے قبل جنین کی جانچ قانون کے تحت ممنوع ہے اور خلاف ورزی کرنے والے ڈاکٹروں اورکلینکس و اسپتالوں کیلئے سخت جرمانے مقرر ہیں اِس کے باوجود دھڑلے سے سارے ملک میں بیٹی کی پیدائش روکنے کا سلسلہ عام ہے ۔ پہلے ہی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اگر بچیوںکے قبل از پیدائش قتل کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں سنگین سماجی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ 
اسے بھی پڑھئے:”تصور کو خود اپنی تصویر کر لے
جن گھروں میں لڑکیوں کی پیدائش ہورہی ہے، وہاں ان کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے مرکزی وزارت انسانی وسائل اور یونیسیف کی حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق اگرچہ لڑکیوں کی تعلیم کے اعتبار سے دہلی، کیرالا اور تاملناڈو سرفہرست ہیں لیکن گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں بہت برا حال ہے۔ ضلع کی سطح پر جو رپورٹیں لڑکیوں کی تعلیم، صحت اور سماجی محرومیوں سے متعلق سامنے آئی ہیں، ان کی روشنی میں ملک کے پسماندہ علاقے ان مسائل کے حل کے لئے حکومت کی توجہ کے طلب گار ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر ملک کو مکمل خواندہ بنانے کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہ شرمناک بات ہے کہ سارے ملک میں صرف کیرالا، تاملناڈو، ہماچل پردیش، دہلی اور تریپورہ میں ہی لڑکیوں کو بہتر تعلیم کی سہولتیں میسرہیں اور لڑکیوں کی بڑی تعداد ان سے استفادہ بھی کر رہی ہے۔ شمالی ریاستوں بشمول راجستھان، مدھیہ پردیش اور بہار میں لڑکیوں کی تعلیم پر بہت کم توجہ ہے۔ بہرحال تاملناڈو جیسی ریاست میں بھی جہاں مجموعی طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی گئی ہے اور درکار سہولتیں مہیا کی گئی ہیں، رامنتاپورم، کرشنا گیری اور دھرم پوری اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے انتظامات بالکل ناقص ہیں۔ مرکز اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف لڑکیوںکے پیدائش سے قبل قتل کے سلسلے کا خاتمہ یقینی بنانے پر خاص توجہ دیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا خاص لحاظ رکھیں۔ لڑکیوں کی شادی بیاہ پر شاہ خرچیوں کو روکنے سے بھی لڑکیوں کی پیدائش روکنے کی لعنت ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
 

شیئر: