Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغرب اور مشرق کا آئینہ اور شکلیں

 
 وسعت اللہ خان
     جب رڈ یارڈ کپلنگ نے کہا کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ کون سا انوکھا انکشاف کیا ہے کپلنگ صاحب نے۔لیکن کپلنگ صاحب کے اس سادہ سے جملے میں ہی دراصل فرق کی تمام کہانی پوشیدہ ہے۔مثلاً دخل در معقولات کی عادت کو ہی لے لیں۔مغرب انسانیت کے درد کے نام پر جتنے شوق سیمشرقی دنیا میں دخل در معقولات کرتا ہے۔مشرقی لوگ اس سے بھی زیادہ شوق سے ایک دوسرے کے انفرادی معاملات میں سماجی تعلق داری کے نام پر فی سبیل اللہ ٹانگ اڑانا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔
    مغرب میں ہر شخص اپنے معاملات میں مگن رہتا ہے اسی لئے وہاں مشرق کے برعکس محلے کے ہر گھر کے ظاہری و پوشیدہ معاملات سے باخبر اور لگائی بجھائی میں طاق آپا حمیدہ کا کردار کسی بھی علاقے میں مشکل سے ہی ملے گا۔مغرب نے یہ کام اپنی سراغرساں ایجنسیوں اور دفترِ خارجہ وغیرہ پر چھوڑ رکھا ہے۔
    مشرق میں آپ آج بھی اپنے کسی دوست کا دروازہ 24 گھنٹے میں کسی بھی وقت بغیر پیشگی اطلاع کے کھٹکھٹا  کے داخل ہوسکتے ہیں اور امکان یہی ہے کہ میزبان ماتھے پر شکن لائے بغیر آپ کا خیرمقدم کرے گا۔کھانے کا وقت ہوگا تو کھانے کا پوچھ لے گا ورنہ چائے تو کہیں نہیں گئی۔لیکن مغرب میں یہ بات ہی ناقابلِ تصور ہے کہ آپ دوست چھوڑ اپنے بھائی کے ہاں ہی بغیر پیشگی اطلاع کے جا سکیں۔اگر چلے بھی گئے تو وہ دروازہ کھولتے ہوئے پہلے آپ کو اوپر سے نیچے تک اور پھر گھڑی کو دیکھتے ہوئے پوچھے گا خیریت ؟ اس وقت ؟ اچانک ؟ سب ٹھیک  تو ہے ؟
    مشرقی محاورہ ہے کہ ایمانداری اچھی چیز ہے مگر یہ محاورہ مغرب میں یوں ہے کہ ہونیسٹی از دی بیسٹ پالیسی۔گویا ایمانداری بھی پالیسی کا حصہ ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ مغربی فرد آپ کو انشااللہ کہنے کے بجائے صاف صاف بتا دے گا کہ وہ یہ کام کرسکتا ہے یا نہیں۔لیکن مشرق میں صاف انکار معیوب سمجھا جاتا ہے۔لہذا میں جب بھی کسی سے سنتا ہوں کہ آپ اس کام کے بارے میں بے فکر ہوجائیں، بس سمجھیں کہ ہوگیا ، اور سنائیں کیا حال ہے تو مجھے پکا یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ کام بھی خود ہی کرنا پڑے گا یا کسی اور سے کہنا پڑے گا۔
    مغرب میں ملاقات کا وقت یوں طے ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے 5 بجے تشریف لے آئیے کیونکہ مجھے سوا چھ بجے کی ٹرین پکڑنی ہے۔لیکن مشرق میں آپ کسی بھی ملاقاتی سے بہت اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ بھائی شام کے بعد کسی بھی وقت آجاؤ یا کل دوپہر کو چکر لگا لو۔اب یہ آپ کو سوچنا ہے کہ اس کی یا آپ کی شام کب شروع یا ختم ہوتی ہے اور دوپہر سے کیا مراد ہے ؟ بارہ ، ایک یا تین بجے ؟؟؟
    میں نے لندن میں فنز بری پارک کے بس ا سٹیشن پر ٹہلتے ہوئے ایک اہل کار سے پوچھا برمنگھم کے لئے اگلی بس کب روانہ ہوگی۔اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے بتایا تین بج کے پچپن منٹ پر۔میں نے کراچی میں سہراب گوٹھ کے بس سٹینڈ پر حیدرآباد جانے والی ایک کھڑی بس کے ڈرائیور سے پوچھا کتنے بجے چلے گی ؟ کہنے لگا جب سواریاں پوری ہوجائیں گی۔میں نے پوچھا پھر بھی کوئی اندازہ تو ہوگا ؟ کہنے لگا یہی کوئی10، 20، 30 منٹ۔ آپ کیا کسی باہر ملک میں رہتے ہیں ؟
    مغرب میں اگر آپ کو سردرد سمیت کوئی بیماری ہے تو آپ ڈاکٹر سے رجوع کریں گے۔لوگ باگ آپ کی خیریت تو پوچھیں گے مگر یہ نہیں پوچھیں گے کہ کون سی دوا لے رہے ہو۔کس ڈاکٹر کے پاس جارہے ہو۔اگر آپ کو جان لیوا عارضہ بھی ہوگا تب بھی ڈاکٹر آپ کو یہ کہہ کر بہلائے گا کہ ارے کچھ بھی نہیں ہوا۔بس یہ یہ دوا لکھ کے دے رہا  ہوں کھاتے رہو ایک ہفتے میں ٹھیک ہوجاؤ گے۔
    البتہ مشرق ان تکلفات اور جھمیلوں سے تقریباً آزاد ہے۔کیونکہ پہلے ڈاکٹر تو آپ خود ہیں۔اپنی بیماری کی تشخیص خود کیجئے اور کسی بھی میڈیکل ا سٹور سے پین کلر سے ہارٹ اٹیک کے بعد استعمال ہونے والے انجکشن سمیت کوئی بھی دوا لے لیں۔اگر آپ اپنے ڈاکٹر خود بننا پسند نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں۔میڈیکل سٹور والے کو اپنی بیماری کی علامات بتائیے۔وہ پہلے تو اطمینان سے سب سنے گا اس کے بعد بغیر کچھ کہے کوئی ٹیبلٹ ،  کیپسول یا سیرپ تھما دے گا۔
    اور پھر تیمار دار آخر کس دن  کام آئیں گے۔ایک دفعہ مجھے فلو ہوگیا اور میرا اسکول کے زمانے کا دوست عثمان عیادت کے لئے آن دھمکا۔پہلا فقرہ یہ تھا ’’ اب کیا موت پڑ گئی تجھے ؟’’۔۔۔۔۔۔لیکن ہر کوئی اس طرح عیادت نہیں کرتا۔کوئی معالج بن کے آتا ہے۔آپ کے سرہانے رکھی دوائیں اٹھا کرالٹ پلٹ کے دیکھتا ہے ؟ یہ دوائیں کون سے ڈاکٹر نے لکھی ہیں بھائی ؟ آپ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر فاطمی نے۔اوہو کیسے پھنس گئے فاطمی کے پاس۔
    ایک اور صاحب آتے ہی پوچھتے ہیں کیا ہوا ؟ انہیں بتایا جاتا ہے فلو ہوگیا۔وہ کہتے ہیں کہ بھائی اس کا زرا لگ کے علاج کرلینا یہ فلو نہیں جان لیوا افریقی وائرس ہے۔پچھلے سال میرے چچا زاد بھائی کے ہم زلف کی اماں کو ہوگیا تھا۔انہوں نے بھی اسے فلو ہی سمجھا۔چوتھے روز چل بسیں۔مگر تم تو یقیناً احتیاط کررہے ہوگے۔اچھا  تو میں اب چلتا ہوں۔ٹیک کئیر ہاں۔۔۔۔۔۔اور آپ کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے ایسی نظروں سے دیکھتے دیکھتے رخصت ہوتے ہیں گویا آخری دیدار کر رہے ہوں۔بقول میرے دوست جاوید صبا
بیمار نہ پڑنے کے اسباب میں شامل
اک خوفِ عیادت بھی ہے غربت کے علاوہ
    مگر کیا کریں اپنی طبیعت کے ٹیڑھ پن کا جو اس بوالعجیبانہ زندگی اور گھامڑ یاریوں کا اس قدر اسیر ہے کہ کوئی سونے میں بھی تول دے تو نیویارک و لندن کے مقابلے میں کراچی و رحیم یار خان نہ چھوٹے۔یہ کوئی لاف زنی نہیں بلکہ یہ بات مغرب میں بارہ برس آرام دہ زندگی گذارنے کے بعد کہہ رہا ہوں کہ جسے میں گیارہ برس پہلے تیاگ آیا اور ملال بھی نہیں۔کپلنگ ٹھیک ہی کہتا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - -فیثا غورث

شیئر:

متعلقہ خبریں