Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز و مریم خطرناک راہ پر

ججوں کیخلاف روزانہ زہر آلود جملے دہرائے جارہے ہیں، اب تو وزیر داخلہ نے بھی باپ بیٹی کی زبان بولنا شروع کردی ہے، عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے

 

صلاح الدین حیدر ۔ بیورو چیف۔کراچی
  بے چاری ن لیگ اور اس کی حکومت دونوں ہی شدید تکلیف میں ہیں آج کل۔میں نے قصداً مصرے میں عنوان اٹھایا ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ آخر ن لیگ کے ساتھ ہو کیا رہاہے اور اس کا مستقبل کیا ہے۔ ان سطور کے لکھتے وقت ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ خبر شدو مد سے نشر کی جارہی تھی کہ نواز شریف اپنی پارٹی کے لوگوں سے سخت ناراض ہیں کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس کی کھل کر مخالفت کیوں نہیں کی۔ ایک بہت بڑی تعداد پارلیمنٹ کے ممبران اور اہم عہدوں پر فائز لوگوں کی جس میں ضلعی اور یونین کونسل کے سیٹ پر فائز لوگوں کی بھی ہے،بالکل خاموش رہے۔ ٹی وی کے مطابق یہ بات انہوں نے ن لیگ میں ہونیوالے حالیہ اجلاس میں کی جس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، وزیر خزانہ اسحا ق ڈار،وزیر داخلہ احسن اقبال،سب ہی موجود تھے۔اکثر ماہرین کا خیال تھا کہ کسی قسم کا لند ن پلان تیار ہورہا ہیـ ابھی تک تو کسی پلان کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن جس طرح کے جملے سابق وزیر اعظم سے منسوب کیے گئے ہیں، ان سے تو یہی تصور ملتا ہے کہ وہ پارٹی سے سخت نالاں ہیںاور اس کے بھی اشارے ملے ہیں کہ شاید نواز شریف ایسے بہت سے لوگوں کو دوبارہ پارٹی کا ٹکٹ نہ دیں۔ بہرحال اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
      انگریزی کا ایک محاورہ ہے ’’trouble don’t come alone , they come in store‘‘ ۔ظاہر ہے کہ نواز شریف کو ایک نہیںکئی طر ف سے مصیبتوں کا سامنا ہے۔بیٹے کی فرم سے تنخواہ نہ لینے پر انہیں عدالت عظمیٰ نے نا اہل قرار دیا ۔ چراغ پا تو ضرور ہوئے،’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی صدا بھی بلند کی اور ایک روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق ان کے جی ٹی روڈ کے 2 دن کے سفر پر تقریباً ایک ارب سے بھی زیادہ کا خرچ آیا۔ ن لیگ کے تاحیات قائد پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ حکومت سے تاحیات نااہل ہونے کے بعد بھی وزارت خارجہ اور وزیر خزانہ کی پرتعیش گاڑیوں میں قافلے کی صورت میں پنجاب ہاؤس سے احتسابی عدالت بیٹی کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔ پٹرول کا خرچہ حکومتی ادارے برداشت کرتے ہیں جس پر ان پر تنقید تو ہو ہی رہی ہے ۔خدشہ یہ ہے کہ کہیں عدالت اس کا نوٹس نہ لے لے اور ایک نیا مقدمہ ان کے خلاف قائم ہوجائے۔
     پچھلے 2 روز سے وفاقی حکومت ایک نئے مسائل سے دو چار نظر آتی ہے ۔ قومی اقتصادی کونسل جو کہ وزیر اعظم کی صدارت میں نئے سال کا بجٹ تیار کررہی ہے تاکہ ا سے اس مہینے کی 27 تاریخ کوقومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے، کے 2اجلاس ہوئے۔ پہلے اجلاس میں تو صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ حاضر ہوئے۔تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے علیٰ سندھ کے مراد علی شاہ ، خیبر پختونخوا کے پرویز خٹک اور بلوچستان کے قدوس بزنجو غیر حاضر رہے اور دوسرے دن اجلاس میں تینوں نے واک آئوٹ کیا۔مراد علی شاہ کا کہنا تھاکہ وفاقی حکومت نے اپنی مرضی سے تمام منصوبے بجٹ میں شامل کئے۔ان سے ان کے صوبوں کے بارے میں پوچھا تک نہیں گیا۔ پرویز خٹک بھی وفاقی حکومت سے سخت ناراض نظر آئے۔بلوچستان نے یہاں تک شکایت کی کہ پاکستان کے سب سے غریب صوبے کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال ن لیگ کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔صوبوں نے اپنا احتجاج عوامی سطح پر ریکارڈ کرایاجو کہ شاہد خاقان عباسی کیلئے کسی طرح بھی موزوں نہیں۔
     یہی نہیں پچھلے 2روز سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا بری طرح وزیر اعظم کے پیچھے پڑگیا ہے کہ انہوں نے 3 مفرور ملزموں سے آخر ملاقات کیسے کی ؟ سپریم کورٹ تک نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا وزیر اعظم کو قوانین کا علم نہیں تھا؟ سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کو8 مئی کو پیش ہونے کا حکم صادر فرمایا دیا ہے بلکہ چیف جسٹس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ آگئے تو ہم انہیں حفاظتی ضمانت دیدیں گے۔ بصورت دیگر ہم اپنی مرضی کا فیصلہ سنا دیں گے۔اسحاق ڈار نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں۔ دوسری طرف مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کو اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کا ٹھیکہ بِنا کسی ٹینڈر یا قوانین کا لحاظ کئے دیدیا گیا۔ اربوں روپے سے انہیں نواز دیا گیا لیکن جب سپریم کورٹ اور احتساب کمیشن کی آنکھیں کھلی ہوں ، تو ظاہر ہے چھوٹی اور بڑی چیز کی پکڑ تو ہوگی۔ نیب کے 5 نمائندوں نے اسلا م آباد کے ایئرپورٹ کی تفتیش کی لیکن مزید کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ بحرحال یہ بات صاف ہے کہ مریم پر بھی گہرے سائے منڈلا رہے ہیں۔
     پوچھ گچھ تو ہوگی کہ قواعد و ضوابط کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا۔ منصوبے قومی امانت ہوتے ہیں۔ انہیں ذاتی جاگیر سمجھ لیا گیا ہے۔ تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے،تو پھر ووٹ کا تقدس کیا یکطرفہ ہوگا۔ چیف جسٹس نے اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ ووٹ کا تقدس صرف ووٹ کی پرچی سے ہی نہیں ہوتا بلکہ عوام الناس کی خدمت بھی لازمی ہے۔ باپ اور بیٹی دونوں ہی ہر روز زہر آلود جملے دھراتے رہتے ہیں جہاں نہ صرف چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام لے کر انہیں للکارا گیا بلکہ ججوں کی بے عزتی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی۔ اب تو وزیر داخلہ نے بھی باپ بیٹی کی زبان بولنا شروع کردی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتاہے لیکن عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف اگر شہباز شریف سندھ میں ن لیگ کے لیے جگہ بنانے میں مصروف عمل ہیں تو دوسری طرف نواز اور مریم کا رویہ انتہائی خطرناک راستے کو اپنانے سے باز نہیں آتا۔
مزید پڑھیں:- - - - -کراچی کے اندھیرے

شیئر: