Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر :ند ا کی بریکنگ نیوز نے ثانیہ کے دل کی دھڑکنیں تیز کردیں

تمہیں پتہ ہے کالج کی کئی لڑکیاں مغرور رضا پر فدا ہیں۔اس  بندے میں کشش ہی کچھ ایسی ہے کہ کوئی  اْسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔
 ناہیدطاہر۔ ریاض 
قسط4
پروفیسر  ندا بہت کم وقفہ میں ثانیہ کی اچھی دوست بن گئی تھی۔وہ ایک باتونی لڑکی تھی۔ خبروں کی شوقین ،لوگوں کی سوانح حیات کا مجموعہ بھی  اس کے پاس موجود ہوتا۔جو وہ وقتاًفوقتاً دوست احباب کے نذر کرتی ہوئی مسرور ہوتی۔۔۔۔
آج وہ  رضاکی شخصیت پر روشنی ڈال رہی تھی۔ثانیہ اس کی باتوں سے بے حدمحظوظ ہو نے لگی۔
  ’گْوگْل کی بہن ہوتم۔۔۔۔! ویسے تمھاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مجھے ایسی شخصیتیں متاثر نہیں کرتیں‘۔
ثانیہ نے بے اعتنائی کامظاہرہ کیا۔
  ’کوئی بات نہیں بس تم سنتی رہو تاکہ میرے ذوق کی تسکین ہوجائے۔ندانے قہقہہ لگاکر اپنی کمزوری عیاں کی۔
  ’اچھا‘۔ثانیہ بھی ہنس دی۔
’تمھیں پتہ ہے کالج کی کئی لڑکیاں مغرور رضا پر فدا ہیں۔اس  بندے میں کشش ہی کچھ ایسی ہے کہ کوئی  اْسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔
اچھا۔۔! ثانیہ نے تمسخر سے قہقہہ لگایا۔
رضادولت کے ساتھ دل کا بھی غنی ہے۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی  وجہ سے کچھ مغرور تو ہے لیکن   بہت ذہین لائق وفائق ہے۔ایک اور اہم اطلاع۔۔!
   ’وہ بھی دے دو‘۔ثانیہ نے پہلو بدل کر کہا۔
  رضااس کالج کے ٹرسٹی الطاف حسین صاحب  کا پوتا  ہے۔!!! نداکایہ انکشاف چونکادینے والا تھا۔
’اوہ۔۔۔۔!!!! تبھی ، موصوف کے یہ تیور ہوتے ہیں ‘۔!!! اس نے تبصرہ کیا۔
  ’کیوں کیا کیا اس نے‘؟نداسراپاسوال تھی۔
’اس نے کچھ نہیں کیا۔میں نے ہی تھپڑ رسید کیا تھا تمہارے پسندیدہ رضا احمد پر‘۔ماضی کا واقعہ اس کے سامنے رقص کراْٹھا۔
’خدایا خیر۔تم لڑکی ہو یاکچھ اور۔۔۔۔؟
اتنا حوصلہ ! ایسی کیا بات ہوئی؟اس نے تمہارے ساتھ فلمی رضا مراد والی کوئی بدتمیزی تو نہیں کی‘؟نداسخت حیران تھی۔
   ’یہ فلمی رضا مراد‘۔ثانیہ  پیٹ تھام کر ہنسنے لگی۔پھراس نے رضا سے پہلی ملاقات کا واقعہ من وعن اس کے گوش گزارکردیا۔
’باپ رے تم بھی کسی فلمی ہیروئن سے کم نہیں‘۔ندانے مکھن لگایا۔   
’زیادہ فلمیں دیکھنا چھوڑ دو ورنہ ایک دن ضرور پاگل ہوجائوگی‘۔ثانیہ نے متنبہ کیا۔
  ’اور تم جو لوگوں کو پاگل بنارہی ہو‘۔نداکے ترکی بہ ترکی جواب سے ثانیہ بے حدمحظوظ ہوئی۔
’اچھا۔۔۔تمھارے لیے ایک اور بریکنگ نیوز۔! وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں چاہت کے رنگ لئے ہمیشہ تمہیں تکتا رہتا ہے۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں ، میں نے تمہارے عکس پائے۔۔۔۔۔ کسی نہ کسی بہانے تمہارا ذکر ضرورچھیڑ دیتاہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میں کوئی دودھ پیتی بچی ہوں۔ سب سمجھتی ہوں میں۔!!!!ندانے جیسے تیرمارا۔
’بدتمیز انسان‘۔ثانیہ دھڑکن پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی جھنجھلائی۔
   ’اف!اتنا شور کیسا‘؟؟ ندا کان بند کرتی ہوئی ثانیہ کی جانب دیکھنے لگی۔
  ’پتہ نہیں کیوں سبھی ندا کو بچی سمجھتے ہیں۔!!!
وہ معصومیت سے گویاہوئی۔
  ’ندا ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو تم سمجھ رہی ہو۔نہ تومیرا دل دھڑک رہا ہے اور نہ مجھے کچھ ہوا ہے۔اس نے معصومیت سے کہا۔
  ’میں نے تو کچھ نہیں کہا‘۔ندا  کے لب شوخی سے گردش کرنے لگے۔
مجھے کسی سے نئے رشتے استوار کرنے کی  تمنا و آرزو نہیں ہے۔۔۔۔۔اْس رضامراد سے تو ہرگز نہیں۔اب کی ثانیہ کے لہجے میں اکتاہٹ عود آئی تھی۔
’اب اٹھو۔چلوگھر چلتے ہیں۔۔۔۔تھکان کی وجہ سے براحال ہورہاہے۔اللہ کی بندی اتنے اچھے نام کو ایک ویلن سے تو نہ جوڑو‘۔نداکی سادگی پرثانیہ ہنسنے لگی۔(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭  

شیئر:

متعلقہ خبریں