خاموش قتلِ عام کی خبر نہیں بنتی
بین الاقوامی سائنس جریدے ’’ نیچر ’’ کے مطابق چین اورہندکے بعد پاکستان فضائی آلودگی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی آبادی ہند کی ایک ریاست اتر پردیش کے برابر ہے۔فضائی آلودگی کے سبب پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 10 ہزار شہری مر جاتے ہیں۔
آلودہ پانی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ جتنی اموات ہوتی ہیں ان میں سے 40 فیصد (تقریباً ڈھائی لاکھ ) آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں ( ڈائریا ، ٹائیفائیڈ ، ہیپیٹائٹس وغیرہ ) سے ہوتی ہیں۔اس وقتصرف 18 شہری اور 15فیصد دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔شہری علاقوں میں صرف8 فیصد سیوریج اور ایک فیصد صنعتی پانی کو قابلِ استعمال بنانے کی سہولت میسر ہے۔فضائی اور آبی آلودگی کے سبب بیمار افراد اگر صحت مند ہوں تو ملک کو طبی اخراجات اور کام کے ضائع شدہ اوقات کی مد میں کم ازکم 150 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے۔باالفاظِ دیگر اگر اگلے 10 برس تک150 ارب روپے فی سال فضائی و آبی آلودگی کو کنٹرول کرنے پر خرچ کر دئیے جائیں تو سوچئے اگلے 20 برس تک کتنا قومی فائدہ ممکن ہے ؟
اب زرا اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے نکل کر حقیقی دنیا کی بات کرتے ہیں۔
آلودگی اور خاص طور سے صنعتی کیمیاوی مادوں سے پیدا ہونے والی ٹھوس اور مائع آلودگی کسی کی بھی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں۔ صنعت کار بھی جانتا ہے کہ اس وقت ملک میں جو بھی ماحولیاتی قوانین نافذ ہیں ان کی حالت بنا دانت پوپلے کی ہے۔ان نامرد قوانین کے تحت ماحولیاتی تحفظ پر مامور ادارہ ( انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ) بے لگام صنعتوں کو نوٹس بھیج سکتا ہے یا پھر ماحولیاتی ٹریبونل میں گھسیٹ سکتا ہے ، جہاں مہینوں پر پھیلی سماعت کے بعد بہت سے بہت چند ہزار روپے جرمانے کی سزا ہو جاتی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ ماحولیاتی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب کتنے صنعتی یونٹوں کو سربمہر یا منسوخ کیا گیا ہے۔
پاکستان کا ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں کتنا سنجیدہ سرکاری کمٹمنٹ ہے اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ملک میں پہلی بار وزارتِ ماحولیات تشکیل دی گئی اور اس کے وزیر آصف علی زرداری بنے۔ حکومت بدلی تو وزارت بھی کسی اور محکمے میں مدغم ہوگئی۔تب سے اب تک زہریلا قومی صنعتی فضلہ5گنا بڑھ گیا ہے۔
تقریباً3 برس پہلے پہلے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے لاہور اور گرد و نواح میں پھیلے ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانوں کی ماحولیاتی سیمپلنگ کیلئے ایک سو فیکٹریوں کا سروے کیا اور صرف تین فیکٹریوں میں صنعتی آلودہ پانی کی صفائی کا نظام نصب پایا۔لاہور کی دہلیز سے گزرنے والا دریائے راوی جو مغل بادشاہوں کے رومان و جمالیات کا استعارہ تھا آج وہی راوی عملاً وسطی پنجاب کے صنعتی فضلے اور کیمیاوی مواد کے سبب ایک عظیم زہریلا نالہ بن چکا ہے۔ہر سال مون سون کے2ماہ کے دوران قدرت راوی کی صفائی کرجاتی ہے اور انسان باقی 10 ماہ اسے پہلے سے زیادہ غلیظ کرنے میں جٹ جاتا ہے۔
لاہور سے کچھ پرے بلھے شاہ اور ملکہ ترنم نور جہاں کے شہر قصور کی میتھی پورے پاکستان میں مشہور ہوا کرتی تھی مگر برا ہو چمڑا رنگنے کی صنعت کا جس کے تیزابی پانی نے قصور کی زمین ہی اجاڑ کے رکھ دی۔کیا کسی نے اپنے بچپن میں پینے کے صاف پانی کی بوتل فروخت ہوتے دیکھی تھی ؟
اسلام آباد اور پنڈی اگرچہ قوم کے غم میں نڈھال حکمرانوں اور ان حکمرانوں کے اعصاب پر سوار فوج کی جڑواں راجدہانی ہے مگر وہاں کے 500 صنعتی یونٹ تندہی سے ڈیڑھ ہزار ٹن صنعتی فضلہ پیدا کررہے ہیں اور بیشتر فضلہ روزانہ پنڈی شہر سے گزرنے والے دیہہ نالے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
سندھ جو پاکستان کی آدھی قومی آمدنی فراہم کرتا ہے وہاں جنوبی ایشیا کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر صنعتی فضلہ وصول کرتے کرتے دھرتی کا سرطان ہو چکی ہے۔چند برس پہلے تک سائبیریا سے لاکھوں پرندے موسمِ سرما کی چھٹیاں گزارنے اس کثرت سے منچھر پر آتے کہ جھیل ان کے پروں سے ڈھک جاتی۔یہ پرندے پانی پر پھیلے سرکنڈوں میں رہتے اور مچھلی کھاتے۔آج منچھر کی لاش تیزابیت کے تابوت میں بند اس آبی تیزاب پر تیر رہی ہے اور ہزاروں مہمان پرندے اوپر سے سینہ کوبی کرتے گزر جاتے ہیں۔
سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی کا یہ حال ہے کہ یہاں کے 3 بڑے صنعتی زونز میں لگ بھگ 7 ہزار چھوٹے بڑے کارخانے روزانہ480 ملین گیلن آلودہ پانی باہر پھینک رہے ہیں۔اس میں سے 400 ملین گیلن پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے لیاری اور ملیر ندیوں کے راستے سمندر میں جارہا ہے۔واٹر ٹریٹمنٹ کے 3 پلانٹس میں پانی صاف کرنے کی روزانہ گنجائش صرف80 ملین گیلن ہے۔چنانچہ کراچی کے ساحل پر کھڑے کھڑے آپ لہریں تو گن سکتے ہیں مگر مچھلیوں کو اچھلتا نہیں دیکھ سکتے۔جبکہ صرف 25 برس پہلے یہ حال تھا کہ کلفٹن کے ساحل پر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بھی کھڑے ہوجائیں تو ایک آدھ مچھلی ضرور پیر چھوتی گزر جاتی تھی۔
اس سے بھی بڑی قیامت وہ 10 ہزار ٹن صنعتی و گھریلو فضلہ ہے جو اہلیانِ کراچی روزانہ پیدا کرتے ہیں۔اس میں سے صرف 20 فیصد فضلہ ہی مخصوص جگہوں پر ٹھکانے لگانے کا انتظام ہے۔80 فیصد یا تو یونہی پڑا رہتا ہے ، یا پھر کھلی نالیوں اور سیوریج سسٹم کے زریعے زمین میں جذب ہوجاتا ہے یا ہوا کے دوش پر اڑ جاتا ہے اور انسانی کھال ، دماغ ، اعصاب ، گردوں کی ابتری اور حاملہ ماؤں پر اثر انداز ہو کر نقص زدہ بچوں کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔
ہمارا سارا فوکس اس جانب ہے کہ دہشتگردی سے پچھلے 15برس میں 60 ہزار پاکستانی کیوں مرگئے۔ان دہشتگردوں کے تعاقب میں ہر سال قومی بجٹ کا ایک تہائی بلاواسطہ یا بالواسطہ وقف کیا جا رہا ہے۔مگر وہ فضائی و آبی آلودگی جس نے تین لاکھ ساٹھ ہزار سالانہ کے اعتبار سے پچھلے 15 برس کے دوران 54 لاکھ پاکستانی نگل لئے۔یہ سانحہ کتنی بار بریکنگ نیوز بنا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔