Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعدد ازدواج ، سنت طیبہ کا ایک پرتو

 آپ کی سیرت پاک کا ہر پہلو محفوظ کرنے کیلئے مردوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، عورتوں میں اس کام کیلئے ایک جماعت کی ضرورت تھی
 **  * ڈاکٹر شاہد محمود ۔ پاکستان*  * *
 کافی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کا لج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت نبی کانفرنس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ ٔکرام کو مدعو کیا چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان پیش کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا۔ کانفرنس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کہی۔انہوں نے کہا کہ آج رات میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں…
    میں نے تفصیل چاہی توڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے بتایا کہ 8 سال قبل جب وہ FRCS کیلئے انگلستان گئے تو کرا چی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا ۔ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد ایئر ہوسٹس نے مجھ سے پو چھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ میں نے بتا یاکہ اسلام۔اُس نے ہمارے پیارے نبی کا نام پوچھا، میں نے حضرت محمد بتایا ۔پھر اس نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی نے11 شادیاں کی تھیں؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس نے کہاکہ یہ بات حق اور سچ ہے۔ اسکے بعد ایئر ہوسٹس نے حضورکے بارے (معاذاللہ ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ  3,2دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعدمیرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور کے بارے میں نفرت پیدا ہو گئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔
    8 سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عیدین کی نماز تک میں نے ترک کر دی تھی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔ جب میں 8 سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔
    غور کیجئے، ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر ڈاکٹر عنایت اللہ یہ بیا ن نہ سنتا تو پتہ نہیں اس کا کیا بنتا۔
    اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق پڑھتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی میٹنگز میں جب کوئی ایسی با ت کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں جس سے اعتراض کرنے والوں کے حوصلے بلند ہو جا تے ہیں
    اس لئے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں۔
    ایک باربہاولپور سے ملتان بذریعہ بس میں سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگو ں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہو گیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہو گئے۔
    لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہما رے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لو گو ں کو بتائیں۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں تھے۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کر رہا ہو ں۔
    اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ’’ گرجا گھر‘‘ چلے جا تے ہیں ۔ وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کراتے ہیں۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شا دیوں پر اعتراض کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
     (1) میرے پیا رے نبی نے عالم شباب (25 سال کی عمر ) میں ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی پر قناعت کی (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا )۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے بعد مختلف وجوہ کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کئے۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہاں بہت سے نو جوان بیٹھے ہیں۔ آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شا دی کرے گا؟ سب خاموش رہے۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو 11شادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے۔
    پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اْحد میں 70صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ۔بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ۔ لوگوں کو تر غیب دینے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا (3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور(4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے ۔
     (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسری شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پش نظر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اسکے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے ۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔
    ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ۔ وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔
    (6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے100 گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔
    (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرا دیا۔
    (8) اسی طر ح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہِ ہدایت نصیب ہو۔
     (9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپؓ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔
     (10) حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنیٰ کی رسم توڑنے کیلئے کیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ(لے پالک) کہلاتے تھے۔ ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے ہوا۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنیٰ ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔
      (11)حضور کریم کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا۔مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے: سید عالم نور مجسم نے ارشاد فرمایا کہ (اے عائشہ رضی اللہ عنہا) تم مجھے 3 رات خواب میں دکھائی گئی تھیں۔ آپ کو فرشتہ ریشمی عمدہ کپڑے میں لاتا تھا۔ اس نے ہمیں کہا کہ یہ آپ کی زوجہ ہیں۔ میں نے تمہارے رخ سے کپڑا اٹھایا تو اچانک وہ تم تھیں۔ میں نے کہاکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے پورا فرمائے گا (مشکوٰۃ شریف)۔
    اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کیلئے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی اللہ عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عورتوں میں اس کام کیلئے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا۔ اس کام کی تکمیل کیلئے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکاح کیے۔ آپ نے حکماًازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اُس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپؓ  کو خاص طور پر تعلیم دی۔
    حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 45 سال تک زندہ رہیں ۔ 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔ ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کے گھرعورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کیلئے تھی اور سار ی دنیا کیلئے تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لئے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا۔
    آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں۔ با قی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے۔ آمین ۔
مزید پڑھیں:- - - -ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک، ایمان کی دلیل

شیئر: