Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست کی حدت گرمی سے بھی شدید

***صلاح الدین حیدر ***
ہمارا ملک بھی عجیب دور سے گزررہاہے۔ ہم اسلاف سے سیکھی ہوئی یا جس تہذیب و تمندن کے امین تھے، سب بھلا بیٹھے ہیں، صبرو تحمل سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہا، ذرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت صرف نام کو رہ گئی ہے۔ علامہ اقبال نے آج سے 90سال پہلے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے تلقین کی تھی کہ :
خدا تجھے کسی طوفان سے آشناکردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
مزید فرمایا کہ
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
تیرے صوفے افرنگی تیرے قالین ایرانی
اسے حالات پہ رونا کہیں یا شکوہ، دونوں ہی صورت میں حالات کی کمزوری کی نشان دہی نظر آتی ہے۔ تمہید اس لیے باندھی کہ ہم ذرا اسی بات پر سوچے سمجھے بغیر جنگ و جدل پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اگر تھوڑا سا مزاج میں نرمی پیدا کرلیں تو بہت سے خود ساختہ مسائل ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دیں گے۔ 
پچھلے ایک مہینے سے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ گزشتہ 3,2 ہفتوں سے سیاست کی حدت ، آج کل کی قیامت خیز گرمی سے جہاں پارہ  44/45  ڈگری تک پہنچا ہوا ہے سے کہیں زیادہ شدید ہو چکی ہے۔2 مثالیں پیش ِ خدمت ہیں۔کراچی صوبے کا ذکر کیا کر دیا گیا، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے 100دنوں کا پروگرا م کیا دیا، پیپلز پارٹی بالعموم ، مگر (ن) لیگ تو سراپا احتجاج بن گئی۔اس سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ حکمران پارٹی اب ضرورت سے زیادہ حساس ہوگئی ہے۔اس نے صبر کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ آج سے 4,3ماہ پہلے تک پاکستان تحریک انصاف (ن) لیگ پر تنقید میں ہی اپنی بھلائی سمجھتی تھی لیکن پچھلے ایک مہینے سے نیّا الٹی بہنا شروع ہوگئی۔ اب (ن ) لیگ صرف ردعمل پر ہی زور دیتی نظر آتی ہے۔ عمران خان نے اپنا 100دنوں کا پروگرام دیا ہے۔اس میں کونسی قباحت تھی۔دنیا کے کئی مہذب ممالک میں تو Shadow cabinet  تک بنائی جاتی ہے تاکہ اقتدار میں آکر اپنا منشور پورا کرسکے لیکن نواز لیگ کے کابینہ کے 5 ممبران نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کر ڈالی جہاں عمران کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ وزیر داخلہ جو کہ پلاننگ کے محکمہ کے بھی انچارج ہیں،   یہ کہہ کر کہ عمران کا پروگرام دیکھ کر ہنسی آگئی، خود اپنا مذاق اڑایا ہے۔ پریس کانفر نس سننے والوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وجہ صاف تھی ۔ نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں احسن اقبال پلاننگ منسٹر کی حیثیت سے10 سالہ پروگرام بنا کر اسکے قصیدے پڑھتے تھے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب! پلاننگ کا محکمہ نہیں ہوتا، ایوب خان کے زمانے میں ایک خود مختار پلاننگ کمیشن تھا، جس کا ایک کل وقتی چیئرمین اور3 ممبران ہوتے تھے۔ان میں ایک آج بھی حیا ت ہیں۔ سردار عبدالرب نشترکے صاحبزادے جمیل نشتر،جو بعد میں نیشنل بینک کے صدر بنے  اورڈاکٹر محبوب الحق  دونوں حضرات تو اللہ کو پیارے ہوئے۔  سرتاج عزیز الحمد للہ ابھی حیات ہیں اور پلاننگ کمیشن کے چیئرمین بھی۔ 
احسن اقبال کا دعویٰ کہ عمران خان نے ان کے بنائے ہوئے 2025 پاکستان کی معاشی پروگرام کی نقل کی ہے اور کچھ نہیں، تو پہلے احسن اقبا ل یہ بتا دیں کہ  اب تک انہو ں نے ملک و ملت کے لیے کونسا معاشی پروگرام دیا۔ اگر دیا ہوتا تو آج ملک کی یہ صور تحال نہ ہوتی۔بڑے بڑے دعوئے کئے جاتے ہیں کہ پاکستان تیسری بار ٹیک آف کی پوزیشن پر پہنچ گیا ہے، تو پھر اتنی مہنگائی کیوں ہے؟ 45 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے کیوں ہے۔ آبادی کاکتنا فیصد طبقہ دو وقت کی روٹی کھا سکتاہے۔ایک عام آدمی جس کی ماہانہ تنخواہ 15سے 20ہزار ہے، وہ کیسے گزارا کرتاہے ،کیا کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی یا اپنے میں محو رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ کاش ملک کیلئے کوئی 10 سالہ،20سالہ منصوبہ دیا ہوتا۔ کاش ہم پھر سے منصوبوں پر لوٹ جاتے ۔ کئی سالوں سے تو ہم شب و روز گزارنے میں ہی مصروف عمل نظر آتے ہیں۔دوسری اور اہم بات یہ کہ آپ کا 2025پروگرام ہے کیا؟ ہمیں تو آج تک نہیںپتہ چلا۔اس کی تشہیر کیو ں نہیں کی گئی، پھر اس پروگرام کے تحت سالانہ بجٹ کیوں نہیں بنایاجاتا۔ایک ایسے شخص کو جو نصف اکنامسٹ بھی نہیں، مفتاح اسماعیل اسے راتوں رات وزیر خزانہ بنا دیا گیا اور ہاتھ میں ایک پہلے سے تیار شدہ سالانہ بجٹ پکڑا دیا گیا کہ جیسے تیسے اسمبلی میںپیش کردو۔کس کس بات کو زیر بحث لایا جائے ، ملکی معیشت تنزلی  کی طرف جا رہی ہے، روپیہ ڈالر کے مقابلے میں119کا ہوگیا، مہنگائی سے لوگ تنگ آکر خود کشیوں پر اتر آئے ہیں۔ اس طرف تو وزراء کا دھیان جاتا نہیں، بس عمران خان نے کیا کہا ا س کے پیچھے پڑ جاؤ۔ ہائے بیچاروں کے اعصاب پر عمران سوار ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ن لیگ اپنا پروگرام دیتی۔ انتخابی مہم میں اس پر سیرحاصل بحث ہوتی، پھر لوگ جسے صحیح سمجھتے   ووٹ دیتے، لیکن افسوس پاکستان کی سیاست ساری کی ساری منفی نکات پر مبنی ہے، جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں۔
اُدھر نواز اور مریم ہر  رو ز ایک ہی رونا روتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا،پھر مریم کا یہ بیان کہ نواز شریف بڑے آدمی ہیں۔بڑے ہونے کے ناطے لوگوں کو ان کی عزت کرنی چاہیے اور دوبارہ ووٹ دیکر وزیرا عظم کے عہدے پر بٹھانا چاہیے، وہ یہ بھول گئیں کہ گھر کا بڑا وہ ہوتاہے جو سب کے ساتھ انصاف کرے۔اپنی چھوڑیں،خاندان کے دوسرے افراد کی فلاح و بہبود کی سوچیں، گھر کی دیکھ بھال اورحفاظت کریں، کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو، کیا نواز شریف نے یہ سارے فرائض انجام دئیے؟ یہ مریم صاحبہ خود ہی بتا دیں تو بہتر ہوگا۔ اکثر و بیشتر صحافی حضرات جن کی زندگی تجزئیے کرنے میںگزرگئی، آج بھی حکومت سے نالاں ہیں کہ حکمران جماعت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوتی۔ اسے لوگوں کی مشکلات کا احساس ہی نہیں۔ان میں سے ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنی چاہیے تھی۔ عمران نے تو صرف پروگرام دیا ہے، حکومت لوگوں کو بتائے کہ اس نے قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کیا ہے؟ اور مزید کیا کرنا چاہتی ہے؟
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں ہی کئی مرتبہ اقتدار میں رہی ہیں۔ان کا یہی کہنا ہے کہ انہوں نے عوام کے لیے  بہت کچھ کیا، عمران کا پیچھا کرناسائے کے پیچھے دوڑنا ہے۔کچھ فائدہ نہیں ہوگا،عمران اپنی جگہ صحیح ہے۔ اس کی خیبر پختونخوا میں بہت عزت ہے، لوگ اس کی حکومت سے بہت خوش ہیں۔عرض صرف اتنی سی تھی :اگر بارِ گراں نہ گزرے تو بہتر ہے۔
 
 

شیئر: