Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان المبارک ، برکات و تجلیات کا مہینہ

اس مہینہ کا نام رمضان اس لیے رکھا گیا کہ یہ گناہوں کو جلا کر رکھ دیتا ہے،روزہ سے مقصد یہ ہے کہ انسان کی تینوں  قسم کی شہوات کو اعتدال پر رکھا جائے
 * * *قاری محمد اقبال عبد العزیز۔ ریاض* * *
قابل قدر قارئین! زمانہ اسی ہیئت پر جاری وساری ہے جس شکل وصورت پر اللہ نے اسے ازل سے پیدا فرما رکھا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے خطبہ حجۃ الوداع میں حجاج کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: زمانہ اسی شکل وصورت میں جاری وساری ہے جس ہیئت پر اللہ نے اسے زمین وآسمانوں کی پیدائش کے دن بنایا تھا،سال 12 مہینوں کا ہوتا ہے اور ان میں سے 4 مہینے حرمت والے ہیں۔یہی بات قرآن مجید کی سورۃ التوبہ میں بھی قریبا انہی الفاظ میں کہی گئی ہے۔ انہی 12 مہینوں میں رمضان کا مہینہ بھی ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آرہا تھا مگر جب اسلام نے دنیا کو اپنی آغوش رحمت میں لیا تو اس ماہ رمضان کو برکات وخیرات کا مہینہ بنا دیا۔
ماہ صیام کا نام رمضان’’ رَمضَ یَرْمُضُ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ اس کا مصدر ا’’لرمض ‘‘ہے جس کا معنی ہے گرمی کی جلن ہے ۔ عرب کہتے ہیں : رَمَضَ النہارُ یعنی دن سخت گرم ہو گیا۔ رمضُ الشمس’’ ریت پتھر وغیرہ پر سورج کی تیز شعاعیں پڑنا۔ ’’الرمضا ء کہتے ہیں گرم پتھروں کو ، حدیث پاک میں بھی اس کا ذکر آتا ہے۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں: (صَلَاۃُ الأَوَّابِینَ حِینَ تَرْمُضُ الْفِصَالُ) ’’چاشت کی نماز کا وقت تب ہوتا ہے جب اونٹیوں کے بچوں کے پاؤں دھوپ سے جلنے لگیں۔‘‘ تو رمضان کا معنی ہوا ایسا مہینہ جس میں جس میں سورج کی گرمی اور تپش سے پتھریلی اور ریتلی زمین گرم ہو جاتی ہے۔ عرب کی سرزمین پر اس مہینے میں اتنی گرمی پڑتی تھی کہ اس سے ریت اور پتھر سخت گرم ہوجاتے اور اس پر چلنے والوں کے پاؤں گرم ہو جاتے تھے اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایسا مہینہ ہے جو اس میں روزہ رکھنے والوں کے تمام گناہوں کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔غنیۃ الطالبین میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’اس مہینہ کا نام رمضان اس لیے رکھا گیا کہ یہ گناہوں کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔‘‘
    روزہ سے مقصد یہ ہے کہ انسان کی تینوں کی قسم کی شہوت کو اعتدال پر رکھا جائے۔ کھانے کی شہوت، مال کی شہوت اور جنسی شہوت، کوئی بھی چیز حد اعتدال میں رہے تو فائدہ دیتی ہے مگر جب اعتدال سے بڑھ جائے تو نقصان اور تباہی کا موجب بنتی ہے۔ بارش حد اعتدال میں ہو تو مفید لیکن حد سے بڑھ جائے تو مصیبت ، ہوا اگر حد اعتدال میں رہے تو باعث رحمت لیکن حد سے بڑھ جائے تو آندھی اور طوفان جو ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے۔ پانی اگر کناروں کے اندر بہے تو نہر او ردریا لیکن حد سے نکل جائے تو سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو بستیوں اور فصلوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کھانے کی، جنس کی اور مال کی شہوت ضرورت پوری کرنے تک محدود رہے تو باعث آبادی جہاں ہے لیکن اعتدال سے بڑھ کر حرص بن جائے تو بربادی جہاں بن جاتی ہے۔ روزہ ان تینوں شہوتوں کو حد اعتدال میں رکھنے کا بہترین نسخہ ہے۔
    ماہ رمضان کی سب سے پہلی خاص بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیامت تک کے مسلمانوں کو اس مہینے کے تمام روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد نے فرمایا: اسلام کی بنیاد 5 چیزوں پر ہے جن میں سے ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنا بھی ہے۔
     اس ماہ مبارک کی دوسری خا ص بات یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسول پر قرآن کریم کے نزول کا آغاز غار حراء میں اسی ماہ مبارک میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کریم نازل ہوا جو لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے اور جس میں ہدایت وفرقان کی روشن دلیلیں ہیں۔‘‘ (البقرہ 185)
    مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے الرحیق المختوم میں تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ آغاز نزول قرآن کریم کی رات رمضان المبارک کی21ویں شب تھی۔اس مبار ک مہینے میں قرآن کریم کو لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر’’ بیت العزت‘‘ میں اتارا گیا اور پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا قرآن کریم ضرورت کے مطابق 23برس کی مدت میں آپ کے قلب اطہر پر نازل کیا جاتا رہا۔
    چونکہ قرآن کریم رمضان المبارک میں نازل ہوا اس لیے اسے شہر القرآن بھی کہا گیا ہے۔ اسی لیے اس مہینے میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم کا حکم ہے اور سنت سے بھی ثابت ہے۔ جبریل امین اسی مہینے میں اللہ کے رسول کے ساتھ قرآن کریم دہرایا کرتے تھے۔جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال جبریل نے دو مرتبہ قرآن کریم دہرایا۔
    اس ماہ برکات وتجلیات کی تیسری خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک ایسی رات رکھ دی ہے جو ہرسال آتی ہے اور اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’ جس شخص نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کر لیا ،اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔(متفق علیہ)
    اس ما ہ مبارک کی چوتھی خاص بات یہ ہے کہ اس کے دن کا روزہ اور رات کا قیام پچھلے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ اہتمام کے ساتھ نماز تراویح ادا کرنے سے قیام اللیل کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے۔
    پانچویں خاص بات اس مہینے کی یہ ہے کہ اس کے شروع ہوتے ہی جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو زنجیروں میں قید کر دیا جاتا ہے۔
    چھٹی خاص بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر رات میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ مسند بزار کی روایت کے مطابق رمضان کے ہر دن اور رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایک دعا ضرور قبول فرماتا ہے۔
    ساتویں خاص بات اس ماہ مبار ک کی یہ ہے کہ اس میں سابقہ گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے، اگر اس کا روزہ اور قیام ایمان اور ثواب کی نیت سے کیا جائے۔
    آٹھویں خاص بات یہ ہے کہ اس کے روزے 10 ماہ کے روزوں کے برابر ہیں اور اگر کوئی شخص ماہ شوال کے 6روزے ساتھ ملا لے تو اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جاتا ہے۔
    نویں خاص بات یہ ہے کہ جو شخص اس کی کسی رات میں امام کے روانہ ہونے تک نماز میں شامل رہے تو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔
    دسویں خاص بات یہ ہے کہ اس ماہ برکات وخیرات میں اگر کوئی شخص عمرہ ادا کرے تو اسے پورے حج کا ثواب ملتا ہے بلکہ ایک روایت کے مطابق نبی کریم کے ساتھ مل کر حج کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
    گیارہویں خاص بات اس شہر کریم کی یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں اعتکاف کرنا مشروع ہے۔ یہ دنیا وما فیہا سے کٹ کٹا کر اللہ سے لو لگانے کا نام ہے اور رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں میں اعتکاف بیٹھ کر اپنے رب کو راضی کرنے کا سنہری موقع ہوتا ہے۔
    بارہویں خاص بات اس کی یہ ہے کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کا دور کرنا مشروع ہے۔ دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص پڑھے اور دوسرا سنے پھر دوسرا پڑھے اور پہلا سنے ، بالکل اسی طرح جس طرح جبریل امین ہر رمضان المبارک میں نبی کریم کے ساتھ دور کیا کرتے تھے۔
    تیرہویں خاص بات اس ماہ مبارک کہ یہ ہے کہ اس ماہ فضیل میں افطار صائم کی بڑی فضیلت ہے۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں روزہ دار کو افطار کروانے والے کے لیے اس روزہ دار کے برابر ثواب ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ثواب اللہ تعالیٰ افطار کروانے والے کو اپنے پاس سے دیتے ہیں اور افطار کرنے والے کے اجر سے کچھ بھی کم نہیں کیا جاتا۔
    چودہویں خا ص بات اس ماہ مبارک کی یہ ہے کہ فرزندان اسلام نے اس ماہ برکات کے روزے بھی رکھے اور اسی روزے کی حالت میں میدان جہاد میں دشمنان اسلام کے چھکے بھی چھڑائے۔آئیے سب سے پہلے عہد نبوی کے دوران رمضان المبارک کے ماہ برکات میں ہونے والے اہم واقعات اور اہم جنگی معرکوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
     سریہ حمزہ یا سِیف البحر:
     یہ رمضان المبارک ایک ہجری میں ہوا۔ آپ نے30 صحابہ کرام کو سیدنا حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی سربراہی میں ساحل بحر پر بھیجا تاکہ وہ شام سے آنے والے قریش کے ایک قافلے کا پتہ لگائیں۔اس قافلے میں 3سو آدمی تھے جن میں ایک ابو جہل بھی تھا۔ بحر احمر کے اطراف میں ینبع اور مروہ کے درمیان ایک مقام عیص پر مسلمان ساحل سمندر پر پہنچے تو قافلے کا سامنا ہو گیا۔ فریقین لڑائی کے لیے صف آراء ہو گئے لیکن بنو جہینہ کے سردار مجدی بن عمر و نے جو دونوں فریقوں کا حلیف تھا، اس نے بیچ میں پڑ کر جنگ نہ ہونے دی اور اس طرح قریش کا قافلہ بچ کر نکل گیا۔
     غزوہ بدر:
    2 ہجری میں 17 رمضان المبارک کو کفر و اسلام کے مابین پہلا معرکہ بدر کے مقام پر ہوا۔ نہ صرف یہ کہ یہ رمضان کا مبارک مہینہ تھا بلکہ جمعہ کا دن بھی تھا۔کفار کی تعداد ایک ہزار جبکہ مسلمان صرف 313 تھے۔ لشکر کفار کی قیادت عمرو بن ہشام ابو جہل کے ہاتھ میں تھی۔ وہ مجاہدین اسلام کے ہاتھوں قتل ہوا ۔میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور پورے عرب میں مسلمان قوم کی دھاک بیٹھ گئی۔ رسول کریم جب میدان بدر میں تھے تو مدینہ طیبہ میں آپ کی لخت جگر سیدہ رقیہ دو ہجری کے اسی رمضان المبارک ہی میں بیمار ہو کر اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔
    3 ہجری کے رمضان المبارک کی 15 تاریخ کو نوجوانان جنت کے سردار سیدنا حسن بن علی کی ولادت ہوئی۔ان کے بارے میں اللہ کے رسو ل کا یہ فرمان بہت مشہور ہے کہ ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بہت عظیم جماعتوں کے ما بین صلح کروا دے گا اور اس طرح امت سے باہمی جھگڑوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
    4 ہجری کے رمضان المبارک میں رسول اللہ کا نکاح ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ہوا۔
    5 ہجری کے رمضان المبارک یا بعض روایات کے مطابق شعبان میں غزوہ بنو مصطلق ہوا جسے غزوہ مریسیع اورغزوۃ العجائب بھی کہتے ہیں اس لیے کہ اس غزوہ میں بہت سے عجیب کاموں کا ظہور ہوا۔ مریسیع بنو مصطلق کے چشمے کا نام ہے ۔ یہ نام ماخوذ ہے عربوں کے ایک قول (رَسَعَتْ عَیْنُ الرَّجُلِ) سے یعنی اس شخص کی آنکھ خراب ہونے کے باعث اس میں سے پانی گرنے لگا۔ یہ چشمہ مدینہ سے مکہ کے راستے پر ایک مقام قدید کے قریب واقع ہے۔ آپ نے بنو مصطلق پر چھاپہ مارااور ان کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا نیز ان کے مال مویشی پر بھی قبضہ کر لیا۔ قیدیوں میں سیدہ جویریہ بھی تھیںوہ بنو المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔ وہ ثابت بن ابی قیس کے حصے میں آئیں۔ ثابت نے انہیں مکاتب بنا لیا۔ پھر رسول اللہ نے ان کی جانب سے مقرر ہ رقم ادا کرکے ان سے شادی کر لی۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو المصطلق کے ایک سو گھرانوں کو آزاد کر دیا کیونکہ وہ اللہ کے رسول کے رشتہ دار بن چکے تھے۔
 ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک کی 20 تاریخ کو وہ عظیم واقعہ ہوا جس کے بعد اسلام کی عظمت مسلم ہوگئی۔ نبی کریم نے صحابہ کے ایک جم غفیر کے ہمراہ مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا۔ اس کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔
     قریش کی افواج کے کمانڈر ان چیف ابو سفیان بھی اس موقع پر اسلام میں داخل ہوئے۔ قریش کے سرداروں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام میں داخل ہوئی۔
    9 ہجری کے رمضان المبارک میں ملوک حمیر کا سفیر مدینہ میں حاضر خدمت ہوا اور بنو ثقیف کا وفد حاضر خدمت ہوا اور اسلام میں داخل ہوئے۔ اسی رمضان المبارک میں رسول اللہ تبوک کے سفر سے واپس مدینہ طیبہ پہنچے۔
    40ہجری کے رمضان المبارک کی 19 تاریخ کو خلیفہ راشد سیدنا علی ابن ابی طالب پر عبد الرحمن بن ملجم حمیری نے نماز فجر کے وقت قاتلانہ حملہ کیا اور آپ23 رمضان المبارک کو اس دار فانی سے شہید ہو کر رخصت ہوئے۔
    58 ہجری کے رمضان المبارک کی19تاریخ کو ام المؤمنین زوجہ مطہرہ امام المرسلین سیدہ عائشہ صدیقہ کی وفات ہوئی۔
    93ہجری کے رمضان المبارک میں مشہور اسلامی جرنیل موسی بن نصیر 18ہزار کا لشکر لے کر اندلس میں فاتحانہ داخل ہوئے اور اسپین کے ان شہروں کو فتح کیا جنہیں طارق بن زیاد فتح نہ کر سکے تھے۔ان میں شذونہ، قرمونہ، اشبیلیہ اور ماردہ شامل تھے۔ماہ رمضان میں ہونے والی اس بابرکت فتح کے آثار اس طرح سامنے آئے کہ مسلمانوں کے اقتدار کا سورج مسلسل 8 سو برس تک ہسپانیہ کے آسمان پر پوری آب وتاب سے چمکتا رہا۔
    114 ہجری کے ما ہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو اسلامی لشکر نے فرانس کی سرزمین پر معرکہ بلاط الشہداء میں حصہ لیا۔ یہ دو راموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کا دور تھا۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کی شہادت کے سبب اس کو معرکہ بلاط الشہداء کا نام دیا گیا۔
    222 ہجری کے رمضان المبارک میں 22 رمضان المبارک کو جمعۃ المبارک کے دن مسلم فوجوں نے عباسی خلیفہ معتصم باللہ کی خلافت کے زمانہ میں خراسان کا شہر بابک فتح کیا۔
    223 ہجری کے رمضان المبارک میں خلیفہ معتصم باللہ کی قیادت میں رومیوں کے ساتھ ایک زبردست لڑائی کے بعد عموریہ شہر کو فتح کر لیا گیا۔یہ جنگ ایک خاتون کی پکار پر کی گئی جس پر کسی عیسائی نے ظلم کیا تھا اور اس نے وامعتصماہ کی دہائی دی تھی۔
    538 ہجری کے رمضان المبارک میں معرکہ حطین برپا ہوا اور مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی کی زیر قیادت بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑا کر اس پر اسلام کا علم لہرایا۔
    559 ہجری کے رمضان المبارک کی9 تاریخ کو معرکہ حارم برپا ہوا جس میں نور الدین زنگی کی قیادت میں اسلامی افواج نے عیسائیوں پر فتح حاصل کی اور حارم شہر کو دوبارہ ملک شام کا حصہ بنا دیا۔
    570 ہجری کے رمضان المبارک میں بعلبک کا شہر فتح ہوا۔ اس ماہ مبارک کی14 تاریخ کو صلاح الدین ایوبی نے شام کے متعدد شہروں کو صلیبیوں سے آزادی دلائی جن میں بعلبک کا شہر بھی تھا۔
    584 ہجری میں رمضان المبارک کے دوران مسلم ا فواج نے شام کے دیگر شہروں کے علاوہ کرک اور صفد کو صلیبیوں کے قبضے سے نجات دلائی۔
    658 ہجری میں رمضان المبارک کی 24 تاریخ کو معرکہ عین جالوت برپا ہوا ۔ یہ بڑی اہم اور ناقابل فراموش جنگ تھی جس میں سلطان سیف الدین قطز نے تارتاریوں کے اس لشکر کو شکست فاش سے دوچار کیا جو پے در پے فتوحات حاصل کرتا ہوا سیلاب کی مانند بڑھتا چلا آرہا تھا۔تاتاریوں کی قیادت ہلاکو خان کررہا تھا۔
    خاندان غلاماں کے دورحکومت میں 1259 عیسوی میں ناصرہ کے قریب سلطان سیف الدین قطز اور ظاہر بیبرس نے اسلامی لشکر کے ساتھ تارتاریوں کے اس تباہ کن طوفان کو بریک لگا دی جس نے مملکت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے کو تاراج کرنے کے بعد اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔
    702ہجری میں رمضان المبارک کی2 تاریخ بمطابق 20 اپریل1303 عیسوی کو معرکہ شقحب یا معرکہ مرج الصفر برپا ہوا۔یہ معرکہ سوریا میں دمشق کے قریب سر زمین شقحب پر برپا ہوا اور3روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں مسلم فوج کی قیادت خاندان غلاماں کے حکمران سلطان ناصر محمد بن قلاوون شاہ مصر وشام کے ہاتھ میں تھی اور منگولوں کے لشکر کی کمان قتلغ شاہ نویان جو محمود غازان خان مغل فارس کا نائب تھا‘ اس کے پاس تھی ۔
    معرکہ کا اختتام مسلمانوں کی فتح کے ساتھ ہوا اور محمود غازان کی شام پر قبضہ کرنے اور عالم اسلامی میں پیش قدمی کرنے کی تمام خواہشات ناکامی ونا مرادی سے دو چار ہوئیں۔الغرض یہ مہینہ صرف روزے رکھنے کا مہینہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ امت کی مجاہدانہ سرگرمیاں بھی کثرت سے وابستہ ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -مادر علمی اور طلبہ کے فرائض و ذمہ داریاں
 

شیئر: