Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران خارجی پابندیوں اور داخلی دھمکیوں کے دوراہے پر

یکم جون2018جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے اخبارالاقتصادیہ کا اداریہ نذر قارئین ہے
    ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور پابندیاں بحال ہونے کے بعد ایران دوراہے پر آگیا ہے۔ ایک طرف امریکی پابندیوں اور ان کے تباہ کن اثرات کی تلوار اسکے سر پر لٹکی ہوئی ہے تو دوسری جانب اقتصادی دگر گونی سے بے حال ایرانی عوام کی دھمکیاں اس کا دم خشک کئے ہوئے ہے۔
    ایران پر عائد پابندیوں کے اثرات کا پہلا اظہار یورپی ممالک کے اس اعتراف کی صورت میں سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ایران نے یمن میں حوثیوں کی مدد کرکے اپنے لئے مشکلات پیدا کرلی ہیں اور یورپی ممالک ایرانیوں پر دباؤ ڈال کر یمن میں جنگ بند کرانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے دوسری بات یہ سامنے آئی ہے کہ یورپی ممالک کی بڑی کمپنیاں ایران سے نکل رہی ہیں۔ بڑے بڑے بینک جن میں سوئس بینک سرفہرست ہیں، ایرانی ملاؤں اور ان کے دم چھلہ دہشتگردوں کے ساتھ لین دین بند کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
    واحد امر جو یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ ملاؤں کی ایرانی حکومت یمن کے حوثی باغیوں کے ساتھ مجرمانہ تعلق کا اعتراف کرچکی ہے۔ یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک اس حقیقت سے پہلے ہی سے واقف تھے بلکہ اس کی وجہ سے مشکلات جھیل رہے تھے۔ اسکے سنگین نتائج سے خبردار بھی کررہے تھے تاہم ایران کا مذکورہ اعتراف امریکی یورپی اتحاد میں دراڑ ڈالنے اور حیلے کی نئی شکل سے استفادے کے طور پر آیا۔ ایرانی اس موقع پر ایک زمینی حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک کو اسٹراٹیجک محرکات کے پیش نظر امریکہ کے کارواں میں چلتے رہنا یورپی ممالک کے اختیار تک سے باہر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یورپی ممالک اپنی روایتی شناخت کو عالمی رائے عامہ کے سامنے قائم رکھنے کیلئے اس حوالے سے مختلف قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
    ایران یہ تاثر دے رہا ہے کہ امریکی موقف سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گااور اگر یورپی یونین میں شامل ممالک نے ٹھوس ضمانتیں نہ دیں تو وہ خود ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔ یورپی ممالک بھی اس کھیل میں ایران کے رکھ رکھاؤ کا خیال رکھ رہے ہیں۔
    امریکی پابندیوں کے اثرات سے ایرانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات ابھر نے لگے ہیںلہذا پابندیوں کی تلوار ایرانی نظام کے سر پر مسلط ہے اور وہ اپنے اثرات ہر آنے والے دن میں زیادہ قوت کے ساتھ دکھائے گی۔
    ملاؤں کی حکومت گزشتہ 40برس کے دوران بین الاقوامی قانونی نظام سے بغاوت کی اپنی پہچان پختہ کرچکی ہے۔ یہ پوری دنیا میں دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والی بڑی ریاست ہے۔ اب یہ خارجی دنیا کی پابندیوں سے کسمپرسی کی حالت کو پہنچنے لگی ہے۔ ایرانی عوام ، ایرانی حکومت کے قدموں تلے سے بساط کھینچنے کے سلسلے میں پر عزم نظر آرہے ہیں۔ اب ایرانی حکومت کے سامنے زہر کا وہ پیالہ پینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا جسے خمینی پہلی جنگ خلیج کے موقع پر عراق کے خلاف جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرتے وقت کیا تھا۔ عالمی عدل ایران کو اب نہ صرف یہ کہ زہر کا پیالا پینے پر مجبور کریگا بلکہ اسے اپنے منطقی انجام سے نمٹنے کا فیصلہ کرنے پر بھی آمادہ کردیگا۔
مزید پڑھیں:- - - -معاشرے کی تشکیل میں رضاکارانہ عمل کی اہمیت

شیئر: