Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نظریہ سازش ماننے والے

علی الغامدی ۔ مکہ
رائے عامہ کی دلچسپی کے کسی بھی موضوع پر ڈرائنگ رومز میں بحث مباحثہ ہوتا ہے تو ہر ایک اپنے نقطہ نظر سے درپیش واقعہ کی تشریح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دور کونے میں بیٹھاہوا شخص اس انتظار میں رہتا ہے کہ سب لوگ اپنی باتیں کہہ چکیں تو وہ انہیں اپنی خفیہ معلومات پیش کرکے سب کو حیرت و استعجاب کے عالم میں مبتلا کردے۔ ایسی معلومات پیش کرے جن سے حاضرین ناواقف ہوں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ جس واقعہ پر گفتگو ہورہی ہے اس کو ہم درست تناظر میں نہیں لے رہے ۔ دراصل یہ واقعہ سازش کی پیداوار ہے۔
اس قسم کے لوگ ہر معاشرے میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ دنیا بھر میں سازشیں ہوتی ہیں، ہورہی ہیں لیکن ہر واقعہ کے تانے بانے سازش سے جوڑ دینا صحتمند سوچ کا طریقہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس قسم کی ذہنیت کیوں کر بنتی ہے اور آخر بہت سارے لوگ سازش کے نظریہ میں کیونکر یقین رکھتے ہیں۔ بہت سارے محرکات ہیں۔ اہم ترین محرک یہ ہے کہ انسان امن و امان کا احساس کرناچاہتاہے اور واقعات کو سمجھنا اپنی ضرورت سمجھتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنی شخصیت کو بہتر شکل میں پیش کرنے کا بھی خواہش مند ہوتا ہے۔ بچپن سے ہی ہماری عقل اطراف میں رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کے چکر میں پڑ جاتی ہے۔ اس حوالے سے بہت سارے سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ بچہ سوچتا ہے کہ آخر بھاری بھرکم سامان لیجانے والا طیارہ گرتا کیوں نہیں۔ سورج کی روشنی برقی توانائی میں کیونکر تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی سوچ کا ایک اہم محرک یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی حیثیت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کے اطراف موجود لوگ اسے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھیں۔ 
مطلوبہ مقدار میں معلومات حاصل کرنے سے خود اعتمادی بڑھتی ہے اور سازش کے نظریات پر یقین کی نفی ہوتی ہے۔ جو لوگ درست معلومات کو صحیح زاویہ نظرسے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کبھی بھی ایسی کسی بھی تشریح کی طرف نہیں جاتے۔ جو حقیقت پر مبنی نہ ہو اورجو کسی بھی واقعہ کے حتمی جواب سے اسے دور کردیتی ہو۔ اس قسم کے لوگ سازش کے نظریہ کے قریب نہیں پھٹکتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: