Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان عفور و درگزر کا مہینہ

علی الجحلی ۔ الاقتصادیہ
رمضان شروع ہوا تھا تو کئی ایسے وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جن میں بہت سارے روزہ داروں کو غیض و غضب کی حالت میں دکھایا گیا۔ افطار کے وقت غصہ نقطہ عروج کو پہنچا ہوا دیکھا گیا۔ ہر انسان افطار کا سامان حاصل کرنے کیلئے دوسرے روزہ دار بھائیوں کو کچل کر آگے بڑھنے میں کسی طرح کی کوئی قباحت محسوس نہیں کررہا تھا۔
میں ایک مسجد کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ میرا ساتھی گاڑی کی طرف جارہا تھا۔ اچانک عقب سے گاڑی کے ڈرائیور نے زبردست ہارن بجا کر مجھے گاڑی کی جانب جانے سے روکا۔ طریقہ کار تہذیب کے منافی تھا۔ ہر ڈرائیور کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہارن کا استعمال تہذیب اور شائستگی کا طلب گار ہوتا ہے۔ ہارن کا مقصد متنبہ کرنا ہوتا ہے۔ راہگیر کو حیران اور پریشان نہیں۔
بہت سارے ممالک میں ایک، ایک ہفتے تک گاڑی کے ہارن کی آواز سننے کو نہیں ملتی۔بدترین پہلو یہ ہے کہ بعض حضرات مقدس مقامات، مساجد ، اسکولوں اور اسپتالوں کے اطراف ہارن شدت سے بجانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جبکہ پوری دنیا میں مساجد ، عبادتگاہوں ، مدارس اور اسپتالوں کے آس پاس ہارن بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے مبلغین کو اس صورتحال پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ انہیں روزہ دارو ںکو بتانا سمجھانا ہوگا کہ غصے، بھگدڑ، مار دھاڑ اور قوت سے ہارن بجانے کے بڑے نقصانات ہیں۔ رمضان المبارک سے اس قسم کی خصلتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ رمضان تو عفو و درگزر کا مہینہ ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سارے خاندان رمضان کی آمد پر اپنے ان پیارو ںکو دیکھنے کے مشتاق ہوتے ہیں جو بوجوہ جیل میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ سعودی عرب سمیت بہت سارے مسلم ممالک رمضان کی آمد پر قیدیوں کی رہائی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ عفو و درگزر کی اچھی مثال ہے۔
یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ انسانی جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے بعض اوقات منفی ردعمل ظاہر ہوسکتا ہے تاہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمارے لئے روشنی کا ذریعہ بننا چاہئے ”اگر تم میں سے کوئی شخص روزے سے ہو تووہ نہ تو لڑائی جھگڑا کرے نہ ہی شو رو شغب کرے، اگر کوئی اسے برابھلا کہے یا دشنام طرازی کرے یا اس سے لڑائی پر آمادہ ہوجائے تو اسے یہ کہنے پر اکتفا کرنا چاہئے کہ میں روزے سے ہوں“۔ یہ ارشاد رسالت ہمیں کردار اور گفتار کو کنٹرول کرنے کا پاکیزہ جذبہ دیتا ہے۔ رمضان میں معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان قربت اور ہمدردی کے پاکیزہ جذبات ہی کو اجاگر کرنا چاہئے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: