Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھیڑخانی روکنے کا قانون کس طرح نافذ ہوگا؟

ڈاکٹر مساعد بن عبداللہ النوح ۔ الجزیرہ
وزارت داخلہ نے انسداد چھیڑخانی قانون تیار کرکے مجلس شوریٰ کو پیش کردیا۔ یہ قانون سعودی معاشرے میں سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے طوفانی ماحول میں تیار کیا گیا ہے۔ اس کے تحت جسمانی اور ذہنی حرمتوں کی خلاف ورزی کا سدباب کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اشارے ، کنائے ، دست درازی اور زبان درازی کے ذریعے آبرو کا تحفظ ہے۔ یہ تحفظ خواتین اور حضرات دونوں کو فراہم کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی چھیڑخانی کی جسارت کریگا اسے اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔
مجلس شوریٰ نے انسداد چھیڑخانی قانون پاس کردیا۔ یہ 8دفعات پر مشتمل ہے۔ حتمی منظوری کیلئے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو پیش کردیا گیا ہے۔ایوان شاہی سے بھی اسے منظوری مل جائیگی۔
اس قانون کی بنیادی سوچ2نکاتی ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کو بدی کے قریب پھٹکنے سے روکا جائے۔ مذکورہ قانون میں چھیڑخانی کی تعریف یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ”کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو لفظی یا عملی یا اشاراتی زبان میں جنسی زیادتی کی تحریک دے،کسی بھی شخص کی آبرو یا جسمانی زک پہنچانے والی کوئی بات یا کوئی حرکت کرے یا جدید ٹیکنالوجی کے وسائل سمیت کسی بھی ذریعے سے بے حیائی والی حرکت کرے یا بے حیائی والی بات کہے۔“
اس نکتے کا اہتمام سورہ انعام کی آیت نمبر 151اور سورہ اسراءکی آیت نمبر 32کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ظاہری و باطنی برائیوں کے قریب پھٹکنے سے منع کیا ہے۔ 
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چھیڑ خانی کرنیوالے اور چھیڑخانی کا شکار ہونیوالے دونوں کے احتساب پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد گرامی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ،وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی پر ظلم کیا جارہا ہو تو ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکا جائے اور مظلوم کو حمایت فراہم کرکے ظلم سے بچایا جائے۔ 
انسداد چھیڑخانی قانون کی زبان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھیڑخانی مردوں کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور صنف نازک کی جانب سے بھی اس کا ارتکاب ممکن ہے۔ مشہور یہی ہے کہ زیادہ تر چھیڑخانی کے واقعات مردوںکی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ خواتین کی جانب سے کی جانیوالی چھیڑخانی کو ریکارڈ پر لانا مشکل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مرد حضرات اس قسم کی شکایت کو اپنی مردانگی کے منافی سمجھتے ہیں۔ میرے خیال سے چھیڑخانی کا ایک ذریعہ اور ہے، وہ یہ کہ مرد ،مرد کو چھیڑے اور عورت ، عورت کے ساتھ چھیڑ خانی کرے۔ 
مجھے یقین ہے کہ خواتین کے سرپرست اس قانون کو دل ودماغ دونوں سے قبول کرینگے ۔ انہیں اطمینان ہوگا کہ ان کی خواتین کسی بھی کام سے اپنی گاڑی لیکر باہر نکلیں گی تو ان کی آبرو محفوظ ہوگی تاہم میری سوچ یہ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد کی راہ میں متعدد مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔ 
پہلی مشکل: احتیاطی تدابیر اپنانا پڑیں گی۔ یہ بہت زیادہ ہیں۔اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ کو ابھی سے اس سلسلے میں آگہی فراہم کرکے اس کی شروعات کی جاسکتی ہے۔ موسم گرما کے مراکز کے توسط سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے۔
دوسری مشکل : قانون سے ناواقفیت ۔ بہت سارے خاندان نہ اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ انٹر نیٹ سے جاری ہونیوالے اخبارات پر نظر ڈالنے کی زحمت کرتے ہیں۔ ہزاروں وہ بھی ہیں جو سوشل میڈیا کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ایسے عالم میں قانون سے رائے عامہ کو واقف کرانے کیلئے جتنے بھی اقدامات کئے جاسکتے ہیں کرنا ہونگے۔ 
تیسری مشکل : چھیڑ خانی کرنیوالے سے نمٹنا۔ قانون میں اس کا واحد طریقہ سزا تجویز کی گئی ہے۔ چھیڑ خانی کرنیوالے اپنے اعزہ کی مدد سے جرمانے بھر سکتے ہیں۔ جہاں تک قید کی سزا کا تعلق ہے، وہ قدر ے موثر ثابت ہوگی۔
چوتھی مشکل : چھیڑخانی کرنیوالے کے ماحول کا مطالعہ اور اس سے پیدا ہونیوالے مسائل سے نمٹنا بھی ضروری ہوگا۔ 
پانچویں مشکل: سزاﺅں کا دائرہ قید اور جرمانوں تک محدود کردیا گیا ہے۔ قید خانے میںجاکر چھیڑ خانی کرنیوالا زیادہ بڑا مجرم بن کر نکل سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ متبادل سزاﺅں پر بھی غور کیا جائے۔
چھٹی مشکل یہ ہے کہ بعض خاندان بدنامی سے بچنے کیلئے شکایت درج کرانے میں آنا کانی سے کام لیں گے۔ مناسب ہوگا کہ چھیڑخانی کی رپورٹ کوصیغہ راز میں رکھنے کا بھی اہتمام کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: