Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی کمپنی کو فریق اور جج بننے کا اختیار کس نے دیدیا؟

ڈاکٹراحسان علی بو حلیقہ ۔ الاقتصادیہ
ہم میں سے کوئی بھی شخص بجلی بل سمیت اخراجات بڑھانا نہیں چاہتا۔ سوشل میڈیا پر بجلی بل کے حوالے سے کافی کچھ لکھا گیا۔ بہت سارے لوگوں نے اسے دیکھا، پڑھا۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ سوشل میڈیا پر بجلی کے استعمال کی بابت بل میں مذکور اعدادوشمار پر شکوک و شبہات کا برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں وہ وڈیو کلپ سب سے زیادہ مقبول ہوا جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک نیا گھر ہے اور بجلی کیبل کو میٹرز سے جوڑ دیا گیا ہے البتہ ابھی تک اسکا کنکشن قائم نہیں کیا گیا۔ اسکے باوجود اس گھر کے مالک کو 3 میٹر کے بجلی بل تھما دیئے گئے۔ وڈیو کلپ میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔ اگر یہ واقعہ درست ہے تو بلاشبہ اس پر تحقیقات اور مواخذہ ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی عمارت جسے ابھی تک بجلی فراہم ہی نہ کی گئی ہو، اس کے مالک کو ہزاروں کلو واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بجلی کے خرچ کا بل پکڑا دیا جائے ناقابل فہم ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں عمارت کا مالک کیا کرے؟ یہ سراسر ظلم ہے۔ اگر وہ انصاف کےلئے بجلی کمپنی سے رجوع کرتا ہے تویہ بات سمجھ سے اس لئے باہر ہے کیونکہ بل خود کمپنی نے جاری کیا ہے۔ ظلم کرنے والا فریق کوئی اور نہیں بلکہ بجلی کمپنی ہے۔ ایسی حالت میں بجلی کمپنی صارف کے ساتھ انصاف کیونکر کرسکتی ہے؟کیا صارف کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ ٹویٹر پر اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم کا رونا روتا رہے یا ہمارے یہاں ایسا ادارہ بھی ہے جو ظلم کرنے والی کمپنی کیخلاف صارف کو انصاف دلائے۔ میری آرزو تھی کہ کاش مذکورہ وڈیو کلپ جاری کرنے والا بجلی کمپنی کے یہاں اپنا اعتراض ریکارڈ کراد یتا۔ اگر وہ کمپنی کے جواب سے مطمئن نہ ہوتا تو اسے کمپنی کیخلاف متعلقہ عدالت پہنچ کر مقدمہ دائر کرنا چاہئے تھا۔بجلی قانون 20شوال 1426ھ کو شاہی فرمان کے ذریعے جاری ہوا تھا۔ اس کی دفعہ 13میں تشریح کی گئی ہے کہ تنازعات نمٹانے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے۔ اس کے رکن 3قوانین کے ماہر ہوں۔2 بجلی سازی کے ماہر ہوں اور ایک مالیاتی امور کا ماہر ۔ قانون میں تنازعات، شکایات اور خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے طور طریقے مقرر کئے گئے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ فیصلہ کرنے والی کمیٹی کو ہزاروں شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اب کمیٹی کا فرض ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر شکایات کو نمٹائے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: