Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک میان میں دو تلواریں

***معصوم مرادآبادی***
کہاجاتا ہے کہ جس طرح ایک میان میں 2تلواریں نہیں سماسکتیں، اسی طرح ایک ریاست میں  2حکمراں بھی نہیں رہ سکتے۔ یہ کہاوت ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن اس کا ذاتی تجربہ ہمیں راجدھانی دہلی کے باشندے کے طور پر گزشتہ چند سال سے ہورہاہے۔ یہاں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) اور وزیراعلیٰ اروندکیجریوال کے درمیان اختیارات کی ایک ایسی کشمکش جاری ہے جو سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ سپریم کورٹ نے  4جولائی کو اپنے تاریخی فیصلے میں اگرچہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا تھا اور اس فیصلے سے عام آدمی پارٹی کے حلقوں میں جشن کا ماحول تھا لیکن ابھی اس فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایل جی اور وزیراعلیٰ کے درمیان افسران کی تقرری اور تبادلوں پر ایک بار پھر تلواریں میان سے باہر آگئی ہیں۔ ایل جی اور وزیراعلیٰ کے درمیان اس رسہ کشی کا اصل سبب کیا ہے اور یہ تنازع باربار کیوں سراٹھاتا ہے، اس پر ہم آگے چل کر روشنی ڈالیں گے ۔ آئیے پہلے سپریم کورٹ کے اس تاریخ ساز فیصلے پر نگاہ ڈالتے ہیں جو اس نے جمہوری طورپر منتخب دہلی حکومت کے اختیارات طے کرنے سے متعلق صادر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی 5 رکنی دستوری بنچ نے اپنے فیصلے میں صاف طورپر کہا ہے کہ جمہوریت میں منتخب شدہ حکومت ہی سب سے اہم ہے اس لئے اراضی اور نظم ونسق کے سوائے باقی تمام معاملات میں فیصلے لینے کا حق صوبائی کابینہ کے پاس ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ ایل جی کے پاس کوئی آزادانہ اختیار نہیں ۔ آئینی بنچ نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ کابینہ کے ہر فیصلے پر ایل جی کی منظوری لازمی نہیں  تاہم فیصلوں کی اطلاع انہیں ضرور دینی ہوگی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ایل جی کو دہلی کا اصل باس قرار دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو عام آدمی پارٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسی کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔ 
ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اس فیصلے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اب ایل جی اور وزیراعلیٰ کے درمیان اختیارات کے سوال پر پیدا ہونے والا تعطل ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا اور دہلی سرکار پٹری پر آجائیگی لیکن یہ امید بھی فضول ثابت ہوئی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جب وزیراعلیٰ نے افسران کی تقرری اور تبادلوں کا اختیار استعمال کیا تو سروسز ڈپارٹمنٹ نے صاف کہہ دیا کہ سرکار کو یہ حق حاصل نہیں کیونکہ یہ حق ایل جی کے پاس ہے ۔
ہم آپ کو یاددلادیں کہ افسران کی طرف سے کیجریوال حکومت کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں اڑچنیں پیدا کرنے کی کوششوں سے ہی تازہ بحران نے جنم لیا تھا۔ پچھلے دنوں وزیراعلیٰ کے گھر پر ایک اہم میٹنگ کے دوران دہلی کے چیف سیکریٹری کے ساتھ مبینہ ہاتھا پائی کے معاملے نے اتنا طول پکڑلیا کہ باقاعدہ پولیس کارروائی عمل میں آئی۔ پچھلے7 مہینے سے دہلی کے سارے افسران چیف سیکریٹری کے ساتھ کی گئی مبینہ بدسلوکی کیخلاف ہڑتال پر تھے اور سرکاری کام کاج ٹھپ پڑا ہواتھا۔ کام کاج کو بحال کرنے اور افسران کو کام پر واپس بھیجنے کا مطالبہ لے کر وزیراعلیٰ اروندکیجریوال نے گزشتہ دنوں اپنے کابینی رفقاء کے ساتھ ایل جی کے گھر پر 9دن تک دھرنا بھی دیا تھا۔ ملک کی
 تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ریاست کا وزیراعلیٰ اپنے کابینی وزراء کے ساتھ گورنر کی رہائش پر رات ودن دھرنے پر بیٹھا ہواتھا۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعدو زیراعلیٰ نے سب سے پہلے ان افسران کا ہی تبادلہ کیا جو سرکاری کام کاج میں رخنہ اندازی کررہے تھے لیکن وزیراعلیٰ کی یہ کوشش بھی کارگرنہیں ہوئی کیونکہ متعلقہ محکمے نے اس پر اعتراض درج کراتے ہوئے اس کا اختیار ایل جی کے پاس بتایا۔ 
دہلی کی مقبول عام کیجریوال سرکار اور ایل جی کے درمیان اس رسہ کشی کی جڑیں دراصل پارٹی سیاست میں پیوست ہیں۔ مرکز کی مودی سرکار کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتی اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں انجام دیتی ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کی دہلی حکومت مرکز کی مودی سرکار کی ناک کے نیچے ایک ایسا شہ تیر ہے جسے دیکھ کر مودی سرکار کو اپنی پسپائی کا احساس ہوتا ہے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ 2014میں مرکزی اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جب مودی کی کامیابی کا رتھ پورے ملک میں گھوم رہا تھا اور وہ کامیابیوں کی نئی داستان لکھ رہے تھے تو 2015کے دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگا تھا۔ 70رکنی دہلی اسمبلی میں بی جے پی کو سارے گھوڑے کھولنے کے باوجود محض 3سیٹیں ملی تھیں اور باقی 67سیٹوں پر عام آدمی پارٹی نے اپنا پرچم لہرایا تھا۔ اس الیکشن میں کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھل پایا تھا۔ دہلی میں بی جے پی کی یہ شکست اتنی مایوس کن تھی کہ اس کے لیڈروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔ اس وقت سے بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان رسہ کشی کا جو سلسلہ چل رہا ہے وہ کسی بھی صورت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ یہ حقیقت ہے کہ دہلی کو ایک مکمل صوبے کا درجہ حاصل نہیں۔ راجدھانی ہونے کے ناطے یہاں کا نظم ونسق ایل جی کے ہاتھوں میں ہے جو براہ راست مرکزی حکومت کو جواب دہ ہے حالانکہ اس سے قبل 15برس تک دہلی میں کانگریس کی وزیراعلیٰ شیلادکشت نے مرکز سے کسی ٹکراؤ کے بغیر سرکار چلائی ہے۔ چونکہ اس عرصے میں بیشتر وقت مرکز اور صوبے میں ایک ہی پارٹی یعنی کانگریس کی حکومت تھی لیکن جب سے مرکز اور صوبے میں سرکاریں تبدیل ہوئی ہیں تب سے ٹکراؤ بڑھ گیا ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ دہلی کی کیجریوال سرکار نے گزشتہ 3 سال کے عرصے میں عوام کو کئی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ان میں سب سے بڑا کام سب سے کم داموں پر بجلی فراہم کرنے کا ہے۔ اسکے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں بھی اس حکومت نے اچھے کام کئے ہیں۔ دہلی کے سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کا حلیہ یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ بڑی حد تک کرپشن پر بھی قابو پالیا گیا ہے۔ عام آدمی پارٹی سرکار کی یہ حصولیابیاں بی جے پی کے گلے سے نہیں اتر رہیں اور وہ عوام میں اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہوکر اسکے عوام دوست فیصلوںکو ناکام کرنے کیلئے رخنہ اندازی کررہی ہے۔ 
 

شیئر: