Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم دشمن سیاست

***وسعت اللہ خان ***
ہر سال 6 ماہ کے دوران کوئی نہ کوئی سرکردہ مقامی یا بین الاقوامی ادارہ پاکستان کے مسلسل زوال پذیر نظامِ تعلیم کے گال پر اعداد و شمار کا  ایک تازہ زناٹے دار تھپڑ  رسید کر دیتا ہے۔اب تو یہ گال اس قدر سخت ہوچکے ہیں کہ یہی معلوم نہیں پڑتا کہ داہنے پر پڑا کہ بائیں پر۔شرم بھی ایک حد تک آتی ہے۔پھر شرم کو بھی آتے ہوئے شرم آنے لگتی ہے۔اقوامِ متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابقاگرچہ پاکستان نے 2030ء  تک خواندگی کی شرح  80فیصد تک لے جانے کا عندیہ دیا ہے۔
مگر حالیہ انتخابی مہم کے دوران ملک گیر و اقتدار کی لپاڈکی میں مشغول سیاسی جماعتوں نے زاتیات کے موضوع پر ایک دوسرے کے چیتھڑے ادھیڑ کر رکھ دئیے ، نوجوان ووٹروں نے نام نہاد الیکٹ ایبلز کو تعلیمی زبوں حالی کے بارے میں تلخ سوالات پوچھ کر مشکل میں ڈال دیا۔ایسی کئی احتسابی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئیں مگر مجال ہے کہ مسلم لیگ ن ، تحریک ِ انصاف یا پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سرکردہ جماعت نے اپنی تقاریر ، نعروں ، وعدوں یا چیتھڑے نما منشوری دستاویزات میں جھوٹے منہ بھی خواندگی میں اضافے کی بابت کوئی نیا روڈ میپ دینے کی زحمت کی ہو۔
حالت یہ ہے کہ پاکستان میں پرائمری لیول کی تعلیم  کا معیار  ترقی یافتہ دنیا سے کم ازکم پچاس برس اور سیکنڈری سطح پر تعلیمی معیار ساٹھ برس پیچھے ہے۔اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق اس وقت افریقی ملک لائبیریا میں 62 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ دوسرے نمبر پر پاکستان ہے جہاں 56 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ایک جانب یہ حال ہے کہ گلگت بلتستان کے ایک ضلع ہنزہ میں خواندگی کا تناسب 90 فیصد ہے مگر باقی گلگت بلتستان کے 50 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔سندھ میں بس چوالیس فیصد بچے ہی اسکول کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔فاٹا کے60 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں اور بلوچستان میں تو70 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔
  عملاً حالت یہ ہے کہ100 میں سے12 بچے پرائمری ، 5 سے 6 بچے مڈل اور 2 سے 3 بچے میٹرک مکمل کر پاتے ہیں۔اس اعتبار سے100 میں سے بس ایک بچہ اور آدھی بچی کالج کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔
بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد12ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے تاہم ان میں سے5 ہزار اسکول ایسے ہیں جو ایک ٹیچر اور ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔80 فیصد مڈل اسکولوں میں سائنس روم نہیں اور 500 کے لگ بھگ ہائی اسکولز ( تقریباً 50 فیصد ) میں سائنس کی بنیادی لیبارٹری نہیں۔سائنسی تعلیم کا کیا رونا جہاں اسی فیصد پرائمری اسکولوں میں 4 بنیادی سہولتیں یعنی چار دیواری ، پینے کا پانی ، بیت الخلا اور بجلی تک نہیں۔اوپر سے ا سکول دور دور ہونے اور ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی کے سبب غربت زدہ والدین جیسے تیسے تعلیم کے حصول کے لئے اپنے بچوں کو  اسکول بھیجنا بھی چاہیں تو فاصلے مار جاتے ہیں۔
2 برس قبل بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بچوں کا انرولمنٹ بہتر دکھانے اور عالمی اداروں سے شاباشی و گرانٹ سمیٹنے کے لئے پرائمری لیول پر 3 لاکھ ایسے بچوں کے ناموں کا بھی اندراج کیا گیا جن کا کوئی وجود نہیں تھا۔اس دوران900کے لگ بھگ ایسے بھوت اسکول بھی دریافت ہوئے جن کا وجود صرف کاغذ پر تھا۔مگر بھوت اساتذہ بھوت بچوں کو پڑھانے کے عوض تنخواہ البتہ اصلی کرارے نوٹوں میں لے رہے تھے۔
تو کیا بلوچستان کے تعلیمی المیے کا تعلق وہاں پر جاری بدامنی سے ہے ؟ غربت سے ہے ؟ نظام سے ہے یا پھر سفاکی سے  ؟ الف اعلان نامی ایک سرکردہ تعلیمی این جی او ہر رکنِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی کے حلقے میں تعلیمی ترقی و تنزلی کا ایک چارٹ جاری کرتی ہے۔یہ چارٹ مجرمانہ تعلیمی غفلت کی ذمہ داری کے تعین میں شاید ہماری کچھ مدد کر سکے۔چارٹ کے مطابق  کوئٹہ اور اس کے مضافات کو چھوڑ کے بلوچستان کے تمام اضلاع120 پاکستانی اضلاع کے تعلیمی چارٹ میں اوپر کے سو اضلاع کی فہرست سے باہر ہیں۔مثلاً سابق بلوچستان اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا عبدالواسع کا ضلع قلعہ سیف اللہ الف اعلان کی تعلیمی درجہ بندی کی فہرست میں ایک سو تیرہویں نمبر پر ہے حالانکہ مولانا صاحب اپنے حلقے سے 6بار رکنِ اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلی ثنا اللہ زہری کا ضلع خضدار تعلیمی پسماندگی کیاعتبار سے120 اضلاع میں سے109 درجے پر ہے حالانکہ زہری صاحب اس حلقے سے 3 بار اسمبلی کے لئے اور ایک بار سینیٹ کے لئے منتخب ہو چکے ہیں اور اگر وہ کبھی بھی الیکشن نہ  لڑیں تب بھی ان کے اختیار پر  کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ طاقتوروں میں سے ایک ہیں۔مگر زہری صاحب کی رعایا کی تعلیم ترجیحاتی فہرست میں پست ترین سطح پر ہے۔بلوچستان کا تعلیمی حال اتنا برا ہے کہ تعلیمی درجہ بندی میں سب سے اوپر اسلام آباد ، دوسرے نمبر پر آزاد کشمیر ، تیسرے نمبر پر پنجاب ، چوتھے نمبر پر گلگت بلتستان ریجن ، پانچویں نمبر پر خیبر پختونخوا ، چھٹے نمبر پر سندھ ، ساتویں پر فاٹا اور آٹھویں درجے پر بلوچستان ہے۔جب صرف ایک بیوروکریٹ کے گھرسے 75 کروڑ روپے کیش برآمد ہوگا تو پھر تعلیم  کے نام پر چونی بھی مختص ہوجانا کسی معجزے سے کم نہ جانئے۔
کہنے کو 1998ء کے گیم چینجر چاغی جوہری دھماکوں کے بعد اب بلوچستان ایک بار پھر پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے زریعے پاکستان کے لئے دوسری بار گیم چینجر بن رہا ہے۔ مگر اس کی اپنی قسمت میں شاید گیم ریزرو ہونا ہی لکھا ہے۔
اگر غربت ، بدامنی ، کرپشن ہی بلوچستان کی تعلیمی یتیمی کے زمہ دار ہیں تو اس اعتبار سے تو سندھ کو پاکستان کا ہارورڈ ہونا چاہئے۔کیونکہ یہ صوبہ پاکستان کا مالیاتی انجن اور معاشی دل کہلاتا ہے۔یہاں تو سو فیصد خواندگی ہونی ہی چاہئے۔پھر یہ کیا کہ بلوچستان کے بعد تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ سندھ ہے۔اس بارے میں اگلے ہفتے دیکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر: