Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں تبدیلی کی ہوا، جج تک کٹہرے میں کھڑے کردیئے گئے

پاکستان کی تاریخ میں کبھی جج کا اوپن کورٹ ٹرائل نہیں ہوا، پہلی مرتبہ جسٹس شوکت عزیز کے خلاف شروع ہوا
صلاح الدین حیدر ۔  بیورو چیف ۔ کراچی
پاکستان میں تبدیلی کی ہوا کیا چلی اب تو ہائی کورٹ کے جج تک کٹہرے میں کھڑے کردئیے گئے۔عدالت عظمیٰ میں پچھلے چند روز سے ایک انتہائی دلچسپ کیس چل رہاہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ ممبروں کابنچ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی سے جرح کررہے چونکہ شوکت صدیقی ، جو کہ نواز شریف کے ترجمان اور پرانے دوست عرفان صدیقی کے چھوٹے بھائی ہیں، شوکت عزیز سے وضاحت طلب کی، ان کے انکار پر اور اصرار پر کہ ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے ، ایسا ہی ہورہاہے۔  شوکت صدیقی کا مطالبہ کہ اُن کو تمام اعلی عدالتوں کے ججوں کے گھروں کے پتے دئیے جائیں،رد کر دیا گیا،کہ کیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے، آئین کے مطابق کسی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشنل کونسل سنتی ہے،لیکن کبھی اوپن کورٹ ٹرائل نہیں ہوا عرصہ ہوا پنجاب ہائی کورٹ کے جج بدعنوانی کے الزام پر سپریم کورٹ جوڈیشنل کونسل میں تحقیقات ہونے کے بعد انہیں فارغ کردیا گیا۔   شوکت صدیقی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوںنے اپنے گھر کی آرائش اور زیبائش پر بنا اجازت سرکاری پیسہ خرچ کیا جس کے وہ مجاز نہیں تھے، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وہ خود پر کوئی بوجھ لینا نہیں چاہتے ، دو یا تین جج صاحبان کے خلاف کیسز کو جلدی سے ختم کیا جائے۔چیف جسٹس نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ بن بلائے جسٹس عزیز کیوں بار بار روسٹرم پر چلے آتے ہیں ، جب کہا جائے تو آئیں، اور جو کچھ پوچھا جائے اس کا جواب دیں، یہ عدالت ہے اور جسٹس عزیز عدالت کے آداب سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے جسٹس عزیز کے وکیل حامد خان سے بھی اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ عدالت کے آداب کا خیال رکھیں، اس قسم کا طور طریقہ قابل قبول نہیں ہے، جسٹس عزیز کی تین مختلف درخواستیں مسترد کر دی  گئیں جہاں انہوںنے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انہیں تمام ججوں کے گھر پر خرچ کا حساب دیا جائے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔انہوںنے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ ان تمام جج صاحبان کی فہرست مہیا کی جائے جو اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بھی 65,00روپے ماہانہ سرکاری کرایہ وصول کرتے رہے ہیں۔ دوسری اور کئی درخواستیں بھی رد کردی گئیں، جہاں انہوں نے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اعلیٰ افسرکے بیٹے خالد انور گوپنگ کی تقرری کے  بارے میں تھی، دیکھیں اس مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوتاہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
  
 

شیئر:

متعلقہ خبریں