Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھرانوں کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟

جس سیاسی جماعت کیلئے دن رات کام کیا اس نے بھی منہ موڑ لیا، خود کی  شادیاں ہوئیں نہ بہنوں کی، انکی جوانی کون لوٹائے گا، بھائی کا شکوہ، محلے والے پہلے ہی نالاں
مصطفی حبیب صدیقی 
یہ بات تو بہت پرانی ہے مگر ایک  نوجوان کی ملاقات  نے پھر تازہ کردی،عمران اور آفتاب بہت اچھے دوست تھے،شہر قائد کے گنجان آباد علاقے  کے رہائشی تھے،بچپن سے ساتھ ساتھ رہنے والے دونوں دوست کرکٹ کے دیوانے تھے،سارا سارادن گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ جمائے رکھنا ،اسکول سے ’’ٹلے‘‘ مارکر میدانوں میں کرکٹ کھیلنا ہی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
شہر میں سیاست عروج پر تھی،سیاسی پارٹیاں نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی تھیں ،نعرے بھی دلفریب تھے۔ایسے میں یہ دونوں نوجوان بھی ایک سیاسی پارٹی کے کارکن بن گئے۔خیال تھا کہ ان کے ساتھ رہ کر سیر وتفریح ہوگی مگر وقت کو کچھ او رہی منظور تھا۔دونوں نے اپنے علاقے میں پارٹی دفتر کھولا اور خوب سرگرمی بڑھائی۔بات صرف یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا مگر وہ دونوں کافی آگے نکلتے چلے گئے۔عمران اور آفتاب پڑوسی تھی ،دونوں کی تین ،تین جوان بہنیں تھیں ،اتفاق سے دونوں ہی یتیم اور گھر کے بڑے تھے۔ عمران اور آفتاب کو نئے  نعرے نے خوب   لبھایا،دونوں کی کوششوں سے علاقے کے درجنوں نوجوان پارٹی میں شامل ہوتے چلے گئے۔دنوں نے انٹر کیااور پھر تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔
سیاست کے اس گورکھ دھندے میں مستقبل کے جھوٹے سچے خواب سجائے دونوں دوست دن رات کام کرتے رہتے۔اہل علاقہ بھی اپنے مسائل لے کر دونوں کے پاس آتے۔پھر اس سیاسی پارٹی کے حکومت سے اختلافات ہوگئے اور شہر میں احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہ دونوں بھی اس احتجاج میں شریک رہے۔اس سیاسی احتجاج کے دوران بسوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگائی گئی اس کارروائی میں بھی دونوں نے حصہ لیا تاہم دونوں دوستوں کو احساس تھا کہ انہیں کس حد تک آگے جانا ہے۔لہٰذا کسی انسان کو نقصان پہنچانے کا سوچنا بھی دونوں کیلئے محال تھا۔اچھے گھرانے کے تربیت یافتہ نوجوان اپنی اخلاقی اقدار کو سنبھال کر آگے بڑھ رہے تھے۔اسی دوران پولیس کی پکڑ پکڑائی شروع ہوئی۔دونوں نوجوانوں کو گرفتار کرلیاگیا۔اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔
دونوں نوجوانو ں پر جلائو گھیرائو کے مقدمات تو بنائے ہی گئے جو کہ صحیح تھے کیونکہ اہل محلہ نے بھی انہیں بسوں اور گاڑیوں کو آگ لگاتے اور دکانیں بند کراتے دیکھا تھا تاہم دونوں پر قتل کے بھی سنگین الزامات عائد کئے گئے۔محلے کے وہ لوگ جو ان کی پارٹی سے اختلاف رکھتے تھے انہوںنے بھی یہ الزام تسلیم کرنے سے انکار کردیامگر ہمارے معاشرے کی بے حسی اور خودغرضی کا قصہ اب شروع ہوتا ہے۔
بظاہر پورا محلہ یہ گواہی دیتا تھا کہ دونوں نوجوان بہت شریف ہیں ،آفتاب اور عمران نے یقینا بسیں جلائیں ،دکانیں بند کرائیں مگر یہ کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہ تھا کہ ان دونوںنے کسی انسان کی جان لی ہوگی اس کے باوجود خواتین نے ان کے گھر جانا چھوڑ دیا۔آفتاب کا ایک بھائی ابھی 20سال کا تھا اور وہ بھی کرکٹ کا دیوانہ تھا ،مگر والدین نے اپنے بچوں کو اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے روک دیا۔وہ باہر نکلتا تو تنہا کھڑا رہتا۔اپنے دوستوں کے پاس جاتا کہ مجھے ساتھ کھلائو جیسے پہلے کھلاتے تھے تو وہ منع کردیتے۔محلے کے وہ بڑے بوڑھے جن کے سامنے پل بڑھ کر آفتاب اور عمران بڑے ہوئے تھے اور آفتاب کا بھائی بھی جن کے سامنے نیکر پہن کر گھومتا تھا وہ منہ پھیرنے لگے۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ جب اخبار میں دونوں کی تصاویر کے ساتھ یہ شائع ہوا کہ دونوں پر قتل کا الزام بھی ہے تو عمران کی بہن کے منگیتر نے رشتہ توڑ دیا جبکہ وہ بھی اسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا ۔دونوں دوستوں کی بہنوں کیلئے رشتے آنا بند ہوگئے۔ان کی مائیں لاکھ کہتی رہیں کہ ان کے بیٹے قاتل نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو اس میں ان کی بچیوں کا کیا قصور ہے مگر اس بے حس اور ظالم معاشرے نے ایک نہ سنی۔
تقریباً 4سال بعد دونوں دوست رہا ہوگئے،دونوں پر قتل کے الزامات ثابت نہ ہوسکے،مگرعدالت نے دونوں کو قتل کے الزام سے باعزت بری کردیا مگر اس ظالم معاشرے نے انہیں بری نہیں کیا۔علاقے میں واپس آنے کے بعد اب وہ دونوں پہلے والے آفتاب اور عمران نہیں تھے۔اب کوئی ان سے مدد کیلئے  نہ آتاتھا۔لوگ ’’کنی ‘‘ کتراکے چلے جاتے تھے۔عمران اور آفتاب کی بڑی بہنوں کے سرپر چاندی چمک اٹھی تھیں۔دونوں نے باہر نکل کر اہل محلہ سے ملاقات کی ،انہیں لاکھ سمجھایا کہ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے،وہ قاتل نہیں تھے ،ہاں انہوںنے احتجاج وغیرہ میں حصہ ضرورلیاتھا اور جلائو گھیرائو کے جرائم کئے تھے مگر قتل نہیں کئے مگر معاشرہ معاف کرنے کو تیارنہ تھا۔آخر دونوں گھرانوں نے اپنے اپنے گھر اونے پونے داموں فروخت کئے اور پھر کہیں دو ر جابسے۔
کافی عرصے پہلے آفتاب کا بھائی راہ چلتے مل گیا۔میرے سوال پر کہنے لگا کہ سب کچھ ہی بدل گیا۔اس معاشرے نے ہم سے جینے کا حق ہی چھین لیاتھا۔جس پارٹی کیلئے دن رات ایک کئے انہوںنے بھی منہ پھیر لیا۔بھائیوں نے شادی کیا کرنی تھی جبکہ بہنوں کی ہی نہیں ہوئی۔دونوں کی بہنیں اب نوکریاں کرتی ہیں شادی کی عمریں گزرے ہوئے بھی برس بیت گئے۔عمران کے بھائی جیسے پیار سے راجو کہتے تھے اس نے مجھ سے سوال کیا کہ!
’’مجھے بتائیں ہمارا قصور کیا ہے؟ہم اس دلفریب نعروں میں پھنس گئے اور پھر تباہ ہوگئے،اگر ہم سے دھوکہ ہوا تھا تو کم ازکم عدالت تو انصاف کرتی۔میرے دونوں بھائیوں کو بے قصور چار سال بند رکھا ،انہیں قاتل قرار دلاکر اخبارات میں تصاویر شائع کرائیں اور پھر بے قصو ر کہہ کر رہا کردیا ،رہائی کے بعد بھی تو دونوں کی بڑی بڑی نمایاں تصاویر اخبارات میں شائع کی جانی چاہئیں تھیں تاکہ لوگ وہ بھی دیکھ لیتے۔
اب مجھے بتائیں میری بہنوں اور بھائیوں کی جوانی کون لوٹائے گا۔اب تو میری ماں بستر سے لگ گئی ہے۔گھر کی رونق ہی ختم ہوچکی ہے۔آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اگر باہر سے نہیں تو کم ازکم ہماری پارٹی کے اندر سے ہی کوئی ہماری بہن کو بیاہ کر لے جاتا؟مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔
قصور وار کون ہے ؟یہ سوال شائد ہمیشہ سوال ہی رہے۔۔۔
 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: