Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیک لوگوں کا حج ، تاریخ کے آئینے میں

’’ مجھے ڈر ہے کہ جب میں کہوں گا: یا اللہ!میں حاضر ہوں تو کہیں ادھر سے یہ آواز نہ آجائے: تمہاری حاضری قبول نہیں

 

* * * *قاری محمد اقبال* * *

   ہماری امت کے نیک لوگ جب حج کی ادائیگی کے لیے جاتے تو ان کی کیفیت بڑی عجیب وغریب ہوتی۔ وہ اس احساس کو دل میں بسا کر عازم بیت اللہ شریف ہوتے کہ وہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضری کے لیے جارہے ہیں اور اپنا تن من دھن اس میں لگا دیتے۔ ان کے خشوع ، خضوع، اخلاص، تقویٰ ، توکل ، صبر ، شکر اور محنت وکوشش کا کیا حال ہوتا تھا ۔ ان سطور میں آپ کوایسے ہی چند واقعات سنائیں گے۔وہ جب اپنی پوری جسمانی اور روحانی قوتیں اس کام میں لگا دیتے تھے تو رحمت الٰہی اور مغفرت الہی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتی تھی۔
    یہ ہجرت کا دسواں سال تھا۔اس سال9 ذو الحج کو جمعہ کا دن تھا ۔ عرفات کے میدان میں صحابہ کرام کا جم غفیر جمع تھا۔آج میدان عرفات ایک ایسا منظر دیکھ رہا تھا کہ جس سے بڑھ کرعظمت والا، تقویٰ والا، جلالت وشان والا موقع نہ اس میدان پر پہلے کبھی آیا نہ بعد میں کبھی آئے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا۔ اللہ کے رسولاس مجمع کی قیادت فرما رہے تھے۔ میدان عرفات صحابہ کرام کی دعاؤں اور التجاؤں سے تھرتھرا رہا تھا۔ رحمت الٰہی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پورے جوش میں تھا۔ ارد گرد کی وادیاں ان موحدین کے نغموں سے گونج رہی تھیں۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آہیں اور سسکیاں عرش الٰہی کو جنبش دے رہی تھیں۔اللہ کے رسولبھی پورے خشوع وخضوع سے اپنے رب سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ پھر آپ جبل رحمت پر چڑھے اور ایک لاکھ 40 ہزار کے عظیم الشان مجمع سے خطاب فرماتے ہیں۔ تمام لوگ اپنی تمام تر توجہ آپ کی لسان مبارک سے نکلنے والے الفاظ پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر ہے جو اللہ کے آخری نبی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ارشاد فرما رہے ہیں۔آپ کے کلمات اللہ کی قدرت سے کانوں سے پہلے دلوں تک پہنچ رہے ہیں۔ اگر چہ مجمع بہت بڑا تھا اور موقع بہت اہم تھا ، وہاں کوئی لاؤڈ اسپیکر بھی نہیں تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کاکرشمہ تھا کہ لسان نبوت سے نکلنے والے الفاظ کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتی ہوئی ہوائیں انہیں اپنے دوش پر اٹھا کر ہر شخص کے کانوں تک پہنچا رہی تھیںاور پیاسے دلوں کو ارشادات نبوت سے سیراب کررہی تھیں۔
    اسی تاریخی موقعے پر اللہ کے رسول پر قرآن کریم کی ایک عظیم آیت کا نزول ہوتا ہے۔ یہ آیت ایک قیمتی موتی اور اللہ کا عظیم احسان تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس آیت کریمہ میں اللہ کے رسول کی اس دار فانی سے روانگی کا بھی اشارہ تھا۔ اس اشارے کا مطلب اہل فہم والہام سمجھ گئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
     {الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیتُ لَکُمُ الإسْلَامَ دِینًا}
     آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو بطور طرز زندگی پسند کر لیا۔
    یہ آیت کریمہ سنتے ہی فاروق امت عمر بن خطابؓ  تڑپ اٹھتے ہیں، ان کا بدن کانپ اٹھتا ہے اور آنسؤوں کی کثرت کے باعث آواز گلے میں اٹک جاتی ہے۔ آپ کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے ۔ حیرت کی بات ہے! اتنی شاندار، اللہ کے احسان اور مسلمانوں کے لیے خوشخبری سے بھرپور آیت سن کر عمر فاروقؓ نے رونا شروع کردیا۔ اس آیت میں رلانے والی کون سی بات ہے۔ رسول کریمآہستہ سے اپنے ساتھی عمر فاروقؓ سے پوچھتے ہیں: تمہیں کس چیز نے رلا دیاعمر؟ ۔ عرض کی: یا رسول اللہ! آج سے پہلے ہمیں گاہے بگاہے دین کا کچھ نیا حصہ ملتا رہتا تھا مگر اب جب کہ دین مکمل ہو گیا تو کوئی بھی چیز جب درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اس میں نقص واقع ہونا شروع جاتا ہے۔
    فاروق اعظم کی عبقریت کے کیا کہنے! آپ کی فقاہت وعلمی رسوخ کی کیا بات ہے۔ آپ تو ان شخصیات میں سے ہیں جو پردے کے پیچھے چھپے ہوئے حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے۔رسول اللہ عمر فاروقؓ  کی نجابت وذہانت کی تحسین فرماتے ہیں۔ آپ ان کی علمی لیاقت اور فقہی صلاحیت سے حیران ہیں۔ فرمایا: تم سچ کہتے ہو عمر!ہاں اللہ کی قسم! آپ نے سچ فرمایا۔دین میں جس نقص کا آپ نے خدشہ ظاہر کیا تھا وہ واقع ہو کر رہا۔ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس خطبہ حج کے بعد نبی کریم صرف 81ر اتیں اس دنیا میں رہے اورپھر اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے۔آپ کے دنیا سے جانے کے بعد اس دین میں جو نقص واقع ہوا اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی۔
    سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر حج کیا۔ فاروق اعظمؓ جب حجر اسود کے قریب پہنچے تو اسے بوسہ دیا اور اسے مخاطب کرکے کہنے لگے: ’’میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے جو نہ نقصان کرسکتا ہے نہ فائدہ دے سکتا ہے، اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تمہیں کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
    سیدنا حکیم بن حزام ؓ  جلیل القدر صحابی رسول ہیں۔ اللہ نے مال ودولت بھی بہت عطا کررکھا تھا۔ آپ حج کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک سو اونٹ ہیں جنہیں یوم النحر کو قربان کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ ایک سو غلام ہیں ۔ جب میدان عرفات میں پہنچتے ہیں تو سو کے سو غلاموں کو اللہ کی رضا کے لیے آزاد کر دیتے ہیں۔ پھر اپنے رب سے ایک دعا مانگتے ہیں: یاا للہ! میں نے ان غلاموں کو تیری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آزاد کیا ۔ ہم بھی تیرے غلام ہیں۔ ہمیں بھی اسی طرح جہنم کی آگ سے اور اپنے عذابوں سے آزادی نصیب فرمادے۔ میدان عرفات میں موجود حجاج کرام یہ منظر دیکھ کر اور حکیم کی دعا سن کو زار وقطار رونے لگ جاتے ہیں۔ وہ بھی دعائیں کر رہے ہیں کہ ان کے پاس غلام تو نہیں مگر جہنم سے آزادی کے وہ سب بھی طلب گار ہیں۔
    سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حج کررہے تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص لاغر بڑھیا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے طواف کررہا تھا۔سیدناعبد اللہؓ نے پوچھا: اے نوجوان یہ تمہاری پیٹھ پر سواری کرنے والی خاتون کون ہے؟ کہنے لگا:یہ میری والدہ ہے۔یہ بتائیے کیا میں نے اپنی امی کا حق ادا کر دیا ہے؟سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! تم جتنی محنت اور کوشش بھی کرلو ، ابھی تک تو اس درد کی پہلی لہر کا حق بھی ادا نہیں ہوا جو اس نے تمہاری ولادت کے وقت برداشت کیا تھا۔
    اللہ اکبر!ما ں کا حق کتنا عظیم ہے !! سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کی بات کا مطلب یہ تھاکہ ابھی تو تمہاری والدہ کے وہ احسانات اس کے علاوہ ہیں جن میں تمہیں اس نے 9 ماہ تک پیٹ میں اٹھایا پھر جنم دینے کے بعد بچپن سے لے کر جوانی تک لمحہ بہ لمحہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اتنابڑا حق اتنی سی مشقت سے کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ کیا ہم سب اپنے والدین کا یہ عظیم حق ادا کررہے ہیں یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔
    عابد ، زاہد،عالم ، فقیہ، محدث حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ  تجارت کیا کرتے تھے۔ اللہ نے ان کے مال میں بہت برکت عطا کررکھی تھی۔ یہ اکثر وبیشتر حج کے لیے جاتے رہتے تھے۔ آپ جب حج کے سفر کا ارادہ کرتے تو ’’مرو‘‘ شہر میں رہنے والے ان کے رشتہ دار اور دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے درخواست کرتے : شیخ محترم!ہمیں بھی اپنے قافلے میں شامل کرلیجیے ، ہم آپ کی رفاقت میں حج کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہؓ  فرماتے :اپنا اپنا زاد راہ لاؤ۔ وہ سب راستے کاخرچ لاتے تو وہ ان سے یہ رقم لے کر ایک صندوق میں بند کرکے رکھ لیتے اور صندوق کو تالا لگا دیتے ۔
    اب حضرت عبد اللہؓ  تمام ساتھیوں اور اہل قافلہ کو لے کرمرو سے بغداد کی طرف چلتے اور تمام ساتھیوں پر اپنی جیب سے خرچ کرنا شروع کردیتے۔ راستے بھر انہیں بہترین اور عمدہ کھانے کھلاتے۔ بغداد پہنچ کر سب کے لیے بہترین کپڑے خریدتے اور انہیں خوبصورت لباسوں میں ملبوس کرتے۔ اس طرح یہ پورا گروپ نہایت شاندار وباوقار ہیئت کے ساتھ بغداد سے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوتا۔مدینہ پہنچ کر تما م اہل قافلہ سے پوچھتے: آپ کے گھر والوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مدینہ طیبہ سے کیا خرید کر لانے کو کہا تھا؟ سب لوگ اپنے اپنے گھر والوں کی فرمائش بتاتے ۔ وہ ہر ایک کے لیے اس کی طلب کے مطابق اشیاء خرید لیتے۔پھر سارے قافلے کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچتے اور جب وہ حج کرکے فارغ ہو جاتے تو تمام ساتھیوں سے پوچھتے: آپ کے گھر والوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مکہ مکرمہ کی اشیاء میں سے کیاکچھ خرید کر لانے کا کہا تھا؟ہر کوئی اپنے اپنے گھر والوں کی ضروریات بتاتا۔ وہ ہر ایک کو اس کی پسند کی چیز لے کر دے دیتے ۔پھر ان سب کو لے کر مکہ مکرمہ سے نکلتے اور واپسی کا سفر مرو کی طرف شروع ہو جاتا۔ راستے بھر ان پر اپنی جیب سے خرچ کرتے یہاں تک سب لوگ مرو پہنچ جاتے۔ عبد اللہ ابن المبارک ان سب کے گھروں میں سفیدی کروا دیتے اور ان کے دروازے بھی رنگین کروا دیتے ۔ 3 دن گزرتے تو ان تمام ساتھیوں کو ایک شاندار دعوت پر بلاتے۔ انہیں بہترین کھانا کھلاتے ،پھر ان میں ہر ایک کو خوبصورت کپڑوں کاایک جوڑا عنایت فرماتے ۔ پھر وہ صندوق منگواتے جس میں ان کی رقوم رکھی ہوئی ہوتیں۔ ہر شخص کی رقم ایک تھیلی میں بند ہوتی جس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ہر شخص کو اس کی پوری رقم واپس مل جاتی کیونکہ حج کا سارا خرچ حضرت عبد اللہؓ  اپنی جیب سے کرتے ۔ آپ کی فیاضی اور کرم کے کیا کہنے ! تاریخ اسلامی نے ایسی ایسی شخصیات بھی دیکھی ہیں۔
    یہ مبارک شخصیت مبارک ماہ میں مبارک شہر مکہ میں مبارک پانی زم زم کی طرف جاتے تو اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر ایک دعا  کرتے ۔ عرض کرتے: میرے رب!تیرے رسول کریم نے فرمایا تھا: آب زم زم کو جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ مقصد اللہ تعالیٰ پورا کر دیتا ہے۔ اللہ!میں یہ پانی اس نیت سے پی رہا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیاس کو اس پانی کی برکت سے بجھا دینا۔
    مطرف بن عبد اللہ الشخیر اور بکر المزنی میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں دست سوال دراز کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک نے اس طرح دعا کی : یا اللہ! میرے گناہوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ان سب لوگوں کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو ناکام ونامراد واپس نہ لوٹانا۔ دوسرے نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس طرح درخواست پیش کی۔ یہ میدان کتنا عظمت والا اور شان والا ہے اگر میرے جیسا نکما انسان اس مجمع میں نہ ہوتا تو شاید سب کی دعائیں قبول کر لی جاتیں، وہ لوگ کس قدر تواضع اور انکساری کے پیکر ہوا کرتے تھے اور بے شمار نیکیاں کرنے کے باوجود وہ کس قدر محتاط رہتے تھے۔
    حضرت فضیل بن عیاض ؓمیدان عرفات میں کسی گمشدہ بچے کی ماں کی طرح پر سوز آہ وبکا کررہے تھے۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہوا تو انہوںنے اپنی داڑھی پکڑ لی اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: ہائے میری بدبختی اگر مجھے معافی نہ ملی۔
    حضرت مسروق رحمہ اللہ جب حج کے لیے جاتے تو بہت کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ حتی کہ ان کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:مسروق جب بھی حج کرتے ہیں تو ایام حج کی ہر رات نماز پڑھنے میں گزار دیتے ہیں۔
    علی بن فضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں حج کے لیے گیا ۔ جب بیت اللہ شریف میں داخل ہوا اور طواف شروع کیا تو دیکھا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کعبہ کے پاس سجدہ میں پڑے ہوئے تھے۔ میں ایک طواف ختم کرکے اسی جگہ پہنچا تو سفیان اسی طرح سجدے میں تھے۔ انہوں نے دوسرا ، تیسرا … حتی کہ ساتوں طواف مکمل کر لیے مگر سفیان اسی طرح سجدہ میں پڑے رہے، انہوں نے سر نہیں اٹھایا۔وہ لوگ اتنے اتنے لمبے سجدے اس لیے کرتے تھے کہ اس عظمت والے گھر میں رحمت الٰہی ان کی طرف متوجہ ہوجائے اور ان کی مغفرت کا سامان ہو جائے۔
    اسود بن یزید نخغی نے 80 بار حج اور عمرہ کی ادائیگی کی۔ ایک سفر میں علقمہ بن قیس بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اسود حج کے ایام میںکثرت سے عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک سخت گرم دن میں انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ اچانک گرمی کی شدت کے باعث ان کی طبیعت بگڑ گئی اور چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔علقمہ نے ان کی ران پر زور سے ہاتھ مارااور کہا: اسود! آخر تم کس لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو اور جسم کو عذاب دے رہے ہو؟ اسود کہنے لگے: ابو شبل! میرے بھائی! میں اس جسم کے لیے اس دن کی راحت کا انتظام کررہا ہوں جس دن کہیں کوئی سایہ نہیں ہوگا اور سورج سر پر ہوگا اور زمین تپ کر کوئلہ ہو رہی ہوگی۔اس دن کا معاملہ بہت سخت ہے، بہت ہی سخت ہے۔
    محمد بن واسع رحمہ اللہ حج کے سفر پر جارہے تھے۔ وہ اونٹ پر سواری کے دوران محمل میں نماز میں مسلسل مشغول رہتے اور حدی خواں سے کہتے: تم بلند آواز سے حدی کے اشعار پڑھتے رہنا تاکہ میری قراء ت کی آواز تمہاری آواز میں دب جائے۔ اس طرح کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں سواری پر بیٹھا نماز پڑھ رہا ہوں۔
    مغیرہ بن حکیم صنعانی یمن سے پیدل چل کر حج کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کیا کرتے تھے۔آپ ہر رات کو 10 پارے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ وہ رات کو کھڑے ہوتے اور نماز کی حالت ہی میں اپنی منزل مکمل کیا کرتے تھے۔وہ سوچتے قرآن تو پڑھنا ہی ہے کیوں نہ اسے نما ز کی حالت میں پڑھا جائے تاکہ اجروثواب اور زیادہ بڑھ جائے۔
    مالک بن انس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ کے ہمراہ حج کا سفر کیا۔سیدنا جعفر جب تلبیہ کہنے کا ارادہ کرتے تو ان پر شدید خوف ورعب طاری ہوجاتا اور ان کے چہرے کارنگ بدل جاتا۔ امام مالک پوچھتے: آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے ؟ وہ فرماتے: مجھے ڈر ہے کہ جب میں کہوں گا: یا اللہ!میں حاضر ہوں تو کہیں ادھر سے یہ آواز نہ آجائے: جعفر! تمہاری حاضری قبول نہیں۔
    مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے ایک سال ارادہ کیا کہ مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا عبد اللہ بن عمر کے ساتھ حج کو جاتا ہوں تاکہ راستے میں ان کی خدمت کر سکوں مگر جب میں ان کے ساتھ روانہ ہوا تو بجائے اس کے کہ میں ان کی خدمت کرتا الٹا وہ میری خدمت کرنے لگ گئے اور سارا راستہ میرا اور ان کا یہی حال رہا۔
    عبد اللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے سفر میں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓکے ساتھ تھا۔ راستے میں آپ کی ایک دیہاتی شخص سے ملاقات ہوئی۔
    سیدنا عبد اللہ بن عمر کے پاس سفر کے لیے ایک اونٹ تھااور ساتھ میں ایک گدھا بھی تھا۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ جب وہ اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو سفر میں خوشگوار تبدیلی کے لیے وہ گدھے پر سواری کیا کرتے تھے۔اس دیہاتی نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جو عمامہ سر پر اوڑھ رکھا تھا ،وہ بھی اسے دے دیااور وہ گدھا بھی دے دیاجو سواری کے لیے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ ابن دینار کہتے ہیں : میں نے کہا: اللہ آپ پر مہربانی فرمائے!یہ دیہاتی لوگ تو معمولی سی چیز لے کر بھی خوش ہو جاتے ہیں ، آپ نے اتنی قیمتی اشیاء اس اعرابی کو دے دیں۔ فرمانے لگے : اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ یہ شخص میرے گرامی قدروالد سیدنا عمر بن الخطاب کا دوست تھا۔ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: سب سے بڑی اور بہترین نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوستوں سے حسن سلوک کرے۔

مزید پڑھیں:- - - - -حج مبرور کی جزا ، جنت

شیئر: