Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب حجر اسود کا بوسہ ممکن نہ ہو !

   اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس حجر اسود کو اٹھائے گا، اس کی2 آنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھے گا اوراس کی زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا
 
* * * محمد منیر قمر۔ الخبر* * *
جب آپ احرام باندھے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوں تو یہاں ’’تحیۃ المسجد ‘‘کی2 رکعتیں پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حرم مکی کاتحیہ طواف ہے۔ ہاں اگر کسی فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو تو سب سے پہلے جماعت میں شامل ہوجائیں ۔ اسی طرح ہی اگر کسی نے فرض نماز نہ پڑھی ہو اورطواف مکمل کرنے تک وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو وہ شخص بھی پہلے فرض نماز اداکرے اورپھر طواف شروع کرے، اس پر تمام ائمہ وفقہاء کااتفاق ہے۔یہ بھی یا د رہے کہ طواف سے پہلے طہارت ووضو شرط ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہؓسے مروی ہے :’’نبی اکرم نے مکہ مکرمہ پہنچ کر سب سے پہلا جوکام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے وضو کیا اورپھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔‘‘
    ایسے ہی صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہؓ کے حائضہ ہوجانے کاواقعہ بھی طہارت کے ضروری ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ اس حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم نے جب مجھے روتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ شاید تم حائضہ ہوگئی ہو؟ میںنے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا :
    ’’یہ ایسی چیز ہے جو آدم کی تمام بیٹیوں (عورتوں )پرلکھی گئی ہے ۔ پس تم ہر وہ کام کرتی جائو جو حاجی کرتا ہے سوائے اس کے کہ طواف نہ کرو حتیٰ کہ تم غسل نہ کرلو ۔‘‘
    باوضو ہوکر حرم شریف میں پہنچتے ہی طواف کاآغاز کردیں ۔ اسے طوافِ قدوم ، طوافِ ورود ، اورطوافِ تحیہ بھی کہاجاتا ہے اورجن لوگوں نے قربانی ساتھ نہیں لی ہوتی اورحج تمتع کررہے ہوتے ہیں، ان کا یہی طواف ’’طوافِ عمرہ ‘‘ہوگا۔
    طواف کامسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حجر اسود کے سامنے آئیں اور  بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر اسے بوسہ دیں۔ کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباسؓ سے اورصحیح مسلم، نسائی، بیہقی اورمسند احمد میں حضرت سوید اورعبداللہ بن عمرؓ  کی احادیث میں طواف کاآغاز اسی طرح مذکو رہے ۔
    حجر اسود کوبوسہ دینا اوربلا واسطہ اپنے ہونٹوں سے چومنا عام حالات میں توممکن ہے مگر ماہ رمضان المبارک اورخصوصاً موسم حج میں اس کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے کیونکہ رمضان المبارک میں عمرۂ رمضان کی فضیلت حاصل کرنے والے اہل ثروت وسعادت بکثرت جمع ہوجاتے ہیں اورموسم حج میں تو لاکھوں کاجم غفیر ضیوف الرحمن کی شکل میں وہاں موجود ہوتا ہے لہٰذا اگر حجر اسود کا بلا واسطہ بوسہ لینا ممکن نہ ہو تو صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی حدیث کے مطابق اسے اپنے دائیں ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے چھوئیں اورپھر اپنے ہاتھ یاچھڑی کو چوم لیں چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے :
    ’’حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ()نے اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا اورآپ() ایک چھڑی کے ساتھ حجر اسود کااستلام کرتے (چھوتے) تھے ۔‘‘حضرت ابوالطفیلؓ سے صحیح مسلم میں مروی ہے : ’’میں نے نبی کو دیکھا کہ آپ   طواف کررہے تھے اوراپنی چھڑی سے حجر اسود کوچھوتے اوراس چھڑی (کے اس حصہ)کو چومتے تھے ۔‘‘یاد رہے کہ اس بوسہ دینے اورکسی چیز کے ساتھ استلام کرنے، دونوں طریقوں کاثبوت صحیح بخاری شریف میں مذکور ایک اورحدیث سے بھی ملتا ہے جس کے راوی حضرت زبیربن عربی ہیں وہ بیان کرتے ہیں :’’ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے استلام (چھونے )کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : میں نے نبی کو دیکھا کہ آپ حجر اسود کو چھوتے اورچومتے تھے ۔‘‘
    اگر بھیڑ اس قدر عام ہو کہ حجر اسود کو کسی چیز یاہاتھ سے چھونا بھی ممکن نہ ہو تو پھر دور ہی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْکہیں اورطواف شروع کردیں کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے :
    ’’نبی نے بیت اللہ شریف کا طواف اونٹ پر بیٹھ کر کیا اورآپ جب حجراسود کے سامنے آتے تو اپنے ہاتھ میں موجود کسی چیز (چھڑی)سے اس کی طرف اشارہ فرماتے اورتکبیر کہتے ۔‘‘
    اس حدیث سے جہاں اشارہ کرنے کے جواز کاپتہ چلتاہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی سے صرف اللہ اکبر کہنا ہی ثابت ہے البتہ حضر ت عبداللہ بن عمرؓ سے بیہقی وغیرہ میں صحیح سند سے موقوفاًثابت ہے کہ وہ  بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ کہاکرتے تھے۔
    اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دو ر سے صرف اشارہ کرنے کی صور ت میں ہاتھ (یا کسی دوسری چیز )کو چومنا بھی صحیح وثابت نہیں ۔ مفتی ٔاعظم سعودی عرب شیخ ابن بازؒ کابھی یہی فتویٰ ہے۔الغرض حسب موقع بوسہ دے کر یاکسی چیز سے چھوکر اوراسے بوسہ دے کر یا پھر دور سے صرف اشارہ کر کے ہاتھ یا کسی چیز کوبوسہ دیئے بغیر  بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے طواف شروع کردیں اوریہ عمل طواف کے ساتوں چکروں میں سے ہر چکر میں دہرائیں کیونکہ ابودائود ،نسائی اورمسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے :
    ’’نبی   طواف کے ہر چکر میں حجر اسود اوررکن یمانی کااستلام ترک نہیں کرتے تھے ۔‘‘
    حجر اسود کو بوسہ دینے اورچھونے کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ ترمذی ،ابن خزیمہ، ابن حبان، مستدرک حاکم اورمسند احمد میں نبی اکرم کاارشاد ہے :
    ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس حجر اسود کو اٹھائے گا جس کی 2آنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھے گا اوراس کی زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا اورہر اس آدمی کیلئے گواہی دے گا جس نے ایمان کے ساتھ حصولِ ثواب کیلئے اسے چھوا (یابوسہ دیا )ہوگا ۔ ‘‘
    ایسے ہی ترمذی وابن خزیمہ ،مستدرک حاکم اورمسند احمد میں ارشا دِ نبوی ہے :
    ’’حجر اسود اوررکن یمانی کوچھونا گناہوں اورخطائوں کومٹادیتا ہے ۔‘‘
    جبکہ ترمذی وابن خزیمۃ اورمسند احمد میں ارشادِ رسالت مآب ہے:
    ’’حجر اسود جنت کا پتھر ہے اوریہ برف سے بھی زیادہ سفیدو شفاف تھا مگر مشرکین کے گناہوں نے اسے کا لا کردیا ہے ۔‘‘
    حجراسود کے ان فضائل کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہرشکل میں اسے بوسہ دینے یاہاتھ سے چھونے کی ہی کوشش کی جائے بلکہ صرف اشارہ کردینے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ یہ طریقہ بھی نبی اکرم کاتعلیم فرمودہ ہے ۔ویسے بھی وہاں دھکم پیل اورسینہ زوری وزور آزمائی کرنا جائز نہیں کیونکہ السنن الماثورہ شافعی ومسند احمد میں ہے کہ نبی اکرم نے حضرت عمر فاروق ؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا:    ’’اے عمر !تو طاقتور آدمی ہے ، کمزوروں کو تکلیف نہ پہنچانا، جب حجر اسود کے استلام کا ارادہ ہواوروہ تمہیں خالی مل جائے تو استلام کرلو (چھولو )ورنہ (بھیڑ ہو تو) اس کی طرف منہ کر کے اللہ اکبر کہو (اوراشارہ کرتے ہوئے گزرجائو )۔‘‘
    یاد رہے کہ رکن یمانی کو طواف کے ساتوں چکر وں میں سے ہر چکر میںہاتھ سے چھونا تومشروع وثابت ہے مگر اس کابوسہ لینا جائز وثابت نہیں اوراگر کسی وجہ سے اسے چھونا ممکن نہ ہو تو پھر اس کی طرف اشارہ کرنا بھی ثابت نہیں۔
    یہ جو عموماًدیکھا گیا ہے کہ لو گ رکن یمانی کو چومتے ہیں اورچومنے یا ہاتھ لگانے کا امکان نہ ہو تو اس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں یہ دونوں فعل چومنا اوراشارہ کرنا درست نہیں اوراس سلسلہ میں تاریخ امام بخاری ،دارقطنی اورابویعلیٰ کی روایت ضعیف ہے ۔
    حجر اسود کوبوسہ دینے، اسے ہاتھ سے چھونے یاپھر محض دور سے اس کی طرف اشارہ کرنے اوربِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَر کہنے کے بعد صحیح مسلم میں مذکور حدیثِ جابرؓ کے مطابق خانۂ کعبہ کو اپنی بائیں جانب رکھیں کیونکہ حضرت جابر ؓ  اس حدیث میں بیان کرتے ہیں :
    ’’نبی جب مکہ مکرمہ تشریف لائے توحجر اسود پر پہنچ کر اس کا استلام کیا پھر آپ ا س کی دائیں جانب سے چلنے لگے ۔‘‘
    طواف کے شروع میں ایک دعاء بڑی معروف ہے :
    اَللّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَتصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَوَفَائً بِعَھْدِکَ وَاتِّبَاعاً لِسُنّۃِ نَبِیِّکَ مُحَمّدٍ ۔
    ’’اے اللہ !تجھ پر ایمان رکھتے ہوئے، تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے، تیرے ساتھ کئے ہوئے عہد کو ایفا کرتے ہوئے اور تیرے نبی حضرت محمد کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے (یہ طواف کرنے لگاہوں )۔‘‘
    لیکن اس دعاء پر مبنی روایت کی سند کو امام شوکانی وعلا مہ البانی جیسے کبار محدثین نے ضعیف قراردیا ہے ۔
    لہٰذ ا بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اکْبَرْ کہہ کر طواف شروع کردیں، حجر اسود سے چل کر وہیں تک پہنچنے پرایک چکر مکمل ہوگا اورایسے7 چکر لگانے ہوتے ہیں ۔
مزید پڑھیں:- - - - -احرام کی حالت میں موذی جانور مار سکتے ہیں؟

شیئر: