Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تم اپنے ذائقہ دار پکوان سے مجھے اپناعادی بنا رہی ہو

 ’’کاش رضا ایسے ہی ہوتے‘‘ثانیہ  کے دل کے کسی کونے سے  آواز اْبھری،اس نے ثانیہ کو دیکھا ، ثانیہ کھڑی ہوئی اوررضا کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا، وہ زیر لب مسکرانے لگا تو ثانیہ کی پیشانی عرق آلود ہوگئی
ناہیدطاہر۔ریاض 
قسط16
قسم سے بڑی پیاری لگ رہی ہو۔۔۔آج تو رضا بھائی کی خیر نہیں۔۔۔۔!!! وہ طائربسمل کی طرح تڑپتے ہوئے آپ کی باہوں میں چلے آئیں گے۔
’اچھا۔۔۔‘ثانیہ نے   سْرخ ہوتی ہوئی ناز کے رخسار پر پیار بھری چپت رسید کی اور  سیڑھیاں پھلانگنے لگی ۔
کھلی چھت کی اونچی منڈیر کے قریب پہنچ کر رضا کاانتظار کرنے لگی۔ناز بھی ثانیہ کے پیچھے چلی آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
رضا کی چمچماتی  گاڑی محلے میں داخل ہوئی توثانیہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔رضا  اپنی عمدہ پرسنالٹی کے ساتھ گاڑی  سے نیچے اتر رہا تھا ’’یہ میرا ہم سفر ہے…!‘‘ دل کی بے ترتیب دھڑکنوں نے میٹھی سی سرگوشی کی تو اس کے چہرے پر شرم وحیا کی سرخی بکھر گئی۔
دیدی آپ کے چہرے پر تو قوس وقزح نمودار ہونے لگی۔
زلفی رانی۔۔۔!وہ بے اختیار ناز سے لپٹ گئی۔
رضا بھائی سے اتنا پیار کرتی ہو۔؟ناز نے حیرانی سے پوچھا لیکن ثانیہ کوئی جواب دیئے بنا سیڑھیوں کی جانب بھاگ گئی۔
یار۔۔۔! دادو نے کہاں پھنسا دیا۔۔!!!  رضا نے  بڑبڑاتے ہوئے ٹائی کی گرہ کو ٹھیک کیا اور  ایک گہری سانس کھینچی۔
’زندگی کی ساری خوشیاں فنا ہو گئیں۔ اس نے بوجھل انداز   میں متوسط طبقے   کے  محلے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے  احمد کوکال کی۔
’رضا بھائی جان‘ احمد خوشی سے آواز دیتا ہوا  دوڑکرگاڑی کے قریب آتا ہوا نظر آیا تو رضا نے موبائل جیب میں رکھا۔محلے کے شریر بچے کار کے اطراف جمع ہوگئے تھے۔احمد  کے قریب آنے پر رضا نے مسکرا کر ہاتھ ملایا۔ احمد بے اختیار گلے لگ گیا۔رضا ہنسا اور اس کی پیٹھ تھپتھپائی، بچے خوشی سے چلانے لگے تو احمد اْنھیں ڈانٹنے لگا ،رضا نے بچوں کو مسکرا کر دیکھتا ہوا احمد کو ڈانٹنے سے منا کیا۔پھر وہ احمد کے ساتھ ہو لیا۔
چھوٹا سا گھر تھا  جوکافی خستہ نظر آرہاتھاجسے نہایت سلیقے سے سجاکر  مفلسی پر نقاب پوشی کی  ناکام کوشش کی گئی تھی۔ رضا کے ماتھے پر  پسینے کی بوندیں ابھرآئیں۔
وسیم فرازنے نہایت گرم جوشی سے رضا کو اپنے گلے سے لگایا، ثانیہ کی امی نے بھی رضا کے سر پر ہاتھ رکھ کر بہت ساری دعائیں دیں۔ رضا  سبھی کے خلوص اور پیار کودیکھ کر کافی متاثر ہونے لگا۔
ثانیہ۔۔۔۔وسیم فراز نے آہستگی سے آواز دی تو ثانیہ دھیمی چال کے ساتھ دیوان خانے میں چلی آئی۔
السلام علیکم۔۔۔!  اس نے  اپنی خوبصورت جھالر نما پلکوں کو جنبش دیتی ہوئی چہرے پر ہلکی شبنمی مسکان سجائے نازک کلائی کو جبیں پر رکھا۔نگاہوں کے حسین سنگم پروہ  سٹپٹاسی گئی اوررضا محظوظ ہواٹھا۔
وعلیکم  السلام۔۔۔! رضا شوخ مسکراہٹ بکھیرتا ہوا ثانیہ کے سراپے پر نظریں دوڑانے لگا۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔خاص کر اس کی سیاہ آنکھیں تو غضب ڈھارہی تھیں۔ رضا کو ثانیہ کی پرکشش آنکھیں بہت زیادہ پسند تھیں۔ثانیہ جب اْس کے گھر رہ رہی تھی تو اکثر وہ اس کی غزالی آنکھوں کو تکتا رہتا تھا۔  جب ثانیہ خوبصورت چوری پکڑ لیتی   تووہ سٹپٹا جاتا، تب ثانیہ دبے لب مسکرادیتی ۔اس کی اس ادا پر رضا کا مضبوط دل  لمحے کو دھڑکنا ہی بھول  جاتا تھا۔
ابو نے ثانیہ کو رضا کے پہلو میں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ ہمیشہ کی طرح حکم کی تعمیل کرگئی۔فضاء میں پرفیوم   کی خوشبو پھیل گئی جس سے رضا کے دل ودماغ پر ایک سرور سا چھانے لگا۔خواتین کا یہ پرفیوم رضا کا پسندیدہ   پرفیوم تھا۔ 
امی ،ابو رضا پرنچھاور ہورہے تھے اور وہ اس خلوص کو  قبول کرتا ہوا کافی خوشدلی کا مظاہرہ کررہاتھا،ثانیہ تشکر سے رضا کو دیکھنے لگی تو وہ جواب میں مسکرادیا۔
ثانیہ ایک وفاشعار بیوی کی طرح پیش آنے کی کوشش کرنے لگی…ہنس ہنس کر اس کی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔ رضا کی گہری سیاہ آنکھیں بڑی ڈھٹائی سے اْس کے خوبصورت سراپے پر دوڑنے لگتیں۔ تب ثانیہ شرم وحیا  ء سے سرخ ہوجاتی ۔
امی نے دستر خوان لگانے کے بعد آواز دی ۔رضا پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا  بولا’  خوشبو ماشاء اللہ بہت عمدہ ہے۔۔۔!!!
پھروہ براہ راست ثانیہ سے مخاطب ہوا۔۔ تم  اپنے  ذائقہ دار پکوان سے مجھے اپناعادی بنا رہی ہو۔۔۔ثانیہ چونک گئی اور بے اختیار حیرت بھری نگاہوں سے رضا کو دیکھنے لگی۔رضا اپنی بات کی گہرائی کو سمجھتا ہوا سٹپٹا گیا۔ ثانیہ کے لبوں پر مسکان پھیل گئی تب رضا کے دل پر بھی ہلکی سی پھوار برس گئی۔ ان خوبصورت لبوں پر میری وجہہ سے گلاب کھل اٹھے رضا کو یہ تصور پتہ نہیں کیوں مسرور کرگیا۔
رضا  تعریفیں کرتا ہوا  طعام نوش فرمارہا تھا۔ اس وقت وہ مغرور رضا سے بالکل جدا  تھا…’’کاش رضا ایسے ہی ہوتے‘‘ثانیہ  کے دل کے کسی کونے سے  آوازاْبھری۔رضا کا یہ اندازثانیہ کے دل پر ‘ پْر کیف سی  دستک دے رہاتھا۔دل ضدی بن گیا تھااور آرزو کرنے لگا تھاکہ وقت تھم جائے۔ اختتامِ طعام  امی گویا ہوئیں۔ رضا آپ ثانیہ کے کمرے میں کچھ دیر آرام کرلیں۔میں  چائے وہیں بھجوادوں گی۔
’جی بہتر…! اس نے ثانیہ کو دیکھا ، ثانیہ کھڑی ہوئی اوررضا کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔رضا زیر  لب مسکرانے لگا تو ثانیہ کی پیشانی عرق آلود ہوئی۔۔۔۔وہ جلدی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: