Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ مغرور اور اناپرست ہے۔۔ہمارے گھر کیسے آئے گا؟ثانیہ پریشان تھی

’’ثانیہ۔۔۔۔! بیٹی سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘احمدی بیگم کی فکر اْن کی آواز میں جھلک رہی تھی،ثانیہ کے ہونٹوں پر بناوٹی مسکراہٹ عود آئی تھی جسے دیکھ کر ناز کی آنکھیں تیزی سے نم ہوگئیں
ناہیدطاہر۔ ریاض  
قسط 15
دوسرے دن اتوار تھا، ٹرین سے سبھی شہر آگئے۔دوران سفر،ناز نے اتنے’’ جوکس‘‘ سنائے کہ ثانیہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوا۔وہ جیسے اپنے سارے غم بھول گئی۔ناز کی کوشش بھی یہی تھی۔
کالج کی چھٹی ابھی باقی تھی،ثانیہ نے اپنی بکھیری چیزیں قرینے سے رکھتی ہوئی خود کو مصروف رکھنے کی ہزار کوشش کی، لیکن تکلیف دہ سوچوں کا دائرہ کہیں نا کہیں سے دوبارہ محور نما الطاف حسین منزل کے گرد چکر لگانے لگتا،جہاں اْس مغرور کے قہقہے ،شرارتیں اور اْسکی تیز نظروں کی تپش موجود تھی جوکرب ناک یاد بن کر دل و دماغ پر ضربیں لگاتی محسوس ہوتیں۔ 
ڈنر کی تیاری اور اس کے اختتام کے بعد جب وہ رسوئی سے تھکی ہاری باہر آئی تو امی نے سوال دہرادیا’’ارے بیٹی آج بھی رضا احمدگھر نہیں آئے؟  ہمیں شہر لوٹے ہوئے 3 دن بیت گئے۔ تمھارے ابو تو کہتے ہیں کہ رضا کو فون کیا تھا وہ کچھ مصروف ہے۔ایسی بھی کیا مصروفیات جو ہمارے داماد کواپنی نئی نویلی دلہن یاد ہی نہیں آرہی  ؟‘‘امی تشویش کن انداز میں کہتی ہوئیں اپنی تجربہ کار نگاہوں سے ثانیہ  کو ٹٹولنے لگیں۔ثانیہ بے اختیار نظریں چْراگئی۔
’’ثانیہ۔۔۔۔! بیٹی سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘احمدی بیگم کی فکر اْن کی آواز میں جھلک رہی تھی۔
’’امی آپ بھی نا۔۔۔! ثانیہ نے مصنوعی مسکراہٹ کے درمیان والدہ کو دیکھاپھر آہستگی سے گویا ہوئی۔۔۔
امی وہ مہمان تھوڑی ہیں مصروفیت ختم ہونے پرضرور آئیں گے۔‘‘ثانیہ کے ہونٹوں پر بناوٹی مسکراہٹ عود آئی تھی جسے دیکھ کر ناز کی آنکھیں تیزی سے نم ہوگئیں۔ثانیہ نے امی کی نظر بچا کر ناز کوتیز نگاہوں سے دیکھا،ناز اپنے لبوں کو بھینچ کروہاں سے اْٹھ گئی کیونکہ ثانیہ کی بے بسی اْس سے برداشت نہیں ہورہی تھی۔
’’احمدی بیگم ، بدگمانی اچھی نہیں ہوتی۔پتہ ہے بدگمانی، اللہ پاک کو بھی نا پسند ہے۔رضا احمد نے کل اتوار کی شام گھر آنے کا وعدہ کیا ہے،ان شاء اللہ وہ کل ضرور آئیں گے۔اب آپ بدگمانی کے پرندوں کو فضاء میں آذاد کیجئے اورداماد کی خاطرمدارات میں لگ جائیں۔‘‘ وسیم فراز نے بیوی کو نہارتے ہوئے کہا تو احمدی بیگم کی جیسے جان میں جان آئی اور وہ مسرور ہوگئیں،جبکہ ثانیہ کی حالت غیر تھی۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ثانیہ حیرانی سے ابو کو تکتی رہی۔ وجود میں ایک عجیب سی سنسناہٹ دوڑتی چلی گئی ، پھراْس پر وحشت اور گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔۔’’ابو وہ کوئی غیر نہیں۔آپ نے خواہ مخواہ تکلف کیا۔‘‘وہ اعصابی تناؤ میں مبتلا دبی آواز میں کہہ گئی۔
’’ارے بیٹی! ہمارے معاشرے میں داماد کابڑا اونچا مقام ہوتا ہے انھیں احترام کے ساتھ پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے، اس کے علاوہ عزت افزائی کے طور پر گھر طعام پرمدعو کرنا بھی ایک رواج ہے۔‘ ثانیہ وہاں سے اٹھ کراپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔دل کی عجیب حالت ہورہی تھی۔ دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ’’وہ یہاں ہمارے گھر آئیگا؟ ‘ایک بازگشت مسلسل دل ودماغ پر ضرب لگاتی چلی گئی۔
’’نہیں یہ ناممکن ہے۔وہ ہمارے غریب خانہ کبھی نہیں آئیں گے۔مغرور جو ہیں۔وہ میرے غریب آنگن میں کبھی قدم نہیں رکھیں گے۔‘‘
ثانیہ تکیہ میں منہ چھپا ئے مسلسل سوچے جارہی تھی۔آنسوؤں کی ہر بوند میں اس ظالم کاخوبرو عکس نمودار ہوکر دل کی گہرائیوں میں تحلیل ہوتا محسوس ہورہا تھا۔اصولاً رضا کو گھربلوانا ثانیہ کا فرض تھا۔
لیکن وہ اپنی انّا ، اور رضا کی تکبرانہ فطرت و رویہ کے زیراثر خاموش رہ گئی تھی۔
بزرگوں نے مجھے یہ کس بندھن سے باندھا ہے اور کن حالات میں قید کردیاگیا۔؟جہاں سے رہائی کسی صورت ممکن نہیں۔ اس نے کروٹ بدل کر سوچتی ہوئی ایک سسکاری سی بھری۔
اتوار کا دن آہی گیا۔ثانیہ کویقین تھا کہ رضا گھر نہیں آئیں گے۔ وہ رضا کو اچھی طرح جان چکی تھی۔وہ مغرور ہی نہیں وعدہ خلاف بھی تھا۔ گھر کے سبھی افراد رضا کے استقبال کی تیاریاں بڑے جوش و خروش سے کررہے تھے۔ امی نے کئی قسم کے پکوان کا اہتمام کیا اور ناز نے بوسیدہ درودیوار کو جھاڑ پونچھ کر چمکانے کی ناکام کوشش کی۔جب ہر لحاظ سے دونوں مطمئن ہوگئیں تو ثانیہ کے کمرے میں چلی آئیں جہاں ثانیہ بڑے آرام سے لیٹی کسی میگزین کے مطالعہ میں غرق تھی. یہ دیکھ کرامی تو چیخ ہی پڑیں۔۔
’’ثانیہ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔؟
امی ٹھیک ہی تو ہوں ‘‘ ثانیہ منہ بناتی اپنے کاٹن کے سوٹ پر نظریں پھیلاتے ہوئے گویا ہوئی۔۔
’’تم ابھی دلہن ہو۔۔۔اتنی سادگی بھی اچھی نہیں ہوتی۔جلدی سے اٹھو اور کوئی ڈھنگ کا لباس زیب تن کرلو۔تمہارے سسرال والوں نے تمہارے لئے ملبوسات کی کوئی کمی نہیں کررکھی۔‘ آخر رضا کیا سوچیں گے کہ کس قدر غیر تہذیب یافتہ لوگوں سے سابقہ پڑا ہے۔
’’امی آپ بھی کمال کی باتیں کرتی ہیں…..مانا کہ مفلسی نے ہمیں ناگن بن کر ڈسا ہے…..لیکن حسن سیرت ،پاکیزہ سی مشرقی تہذیب وتمدن ہماری پہچان ہے…..!!!معاشرے میں ایسے کئی امیر لوگ ہیں جو ہم متوسط طبقے کی ان خوبیوں سے کافی متاثر بھی ہیں اور قائل بھی۔ میرے خیال میں ،رضا کی بے شمار دولت آپ کی بیٹی کے حسن سیرت اور کردار کے آگے ماند پڑیگی۔
ہاں اگرچراغ لے کر ساری دنیا بھی تلاش کرلیں نا انھیں ہماری دیدی جیسی شریک حیات نہیں مل سکتی۔پیچھے سے ناز نے لقمہ دیا تو ثانیہ بے اختیار ہنس دی۔
’’اْف ف ف……یہ  فلسفہ …….‘‘امی ماتھا پِیٹ لیں۔
’’دیدی آج آپ یہ زری کے کام والا شرارہ پہنیں۔قسم سے بہت پیاری لگو گی۔وہ ایک آنکھ دبا کر شرارت سے شرارہ اٹھا لائی جو ثانیہ سے بھی بھاری تھا۔
’’کیا کہا یہ والا۔۔۔؟‘‘وہ آنکھیں پھیلاکربھاری کام والے بھڑکیلے ، وزنی شرارے کو دیکھتی ہوئی چیخ ہی پڑی۔۔
کیوں اس میں کیا برائی ہے امی بڑی پسندیدگی سے شرارے کو دیکھتی ہوئی بولیں۔
’’امی اس گرمی میں یہ شرارہ پہن کر میں توپک ہی جاؤں گی۔اور پھر اسقدر بھڑ کیلا .؟بنا کسی تقریب کے عجیب نہیں لگے گا ؟‘‘
کچھ نہیں سننا بس تم یہی پہنوگی۔! امی ہمیشہ کی طرح اپنا فیصلہ اْس پر صادر کئے کمرے سے چلی گئیں۔
ناز شرارت سے ہنسنے لگی۔
زلفی کی بچی میں نے تجھے گنجا نہ کیا دیکھنا۔
یہ جھنجھلاہٹ مجھ غریب پر کیوں۔۔۔۔۔؟ناز نے قہقہہ لگایا۔
ثانیہ۔۔!جلدی کرو۔۔۔۔احمدی بیگم کی آواز آئی۔
امی حکم صادر کرچکیں۔جس طرح خاموشی سے ایک انجان شخص سے عقد ثانی  کیا تھا، بالکل اسی طرح اس شدت گرمی میں اس بھاری شرارے کو زیب تن کر امی کاحکم بھی بجا لاؤ۔کیونکہ آپ ایک عورت ہو جسکا کام ہی حکم بجا لانا ہے کبھی والدین کا۔۔۔۔توکبھی بھائی کا۔۔۔۔۔۔اورکبھی  مجازی خدا کا۔۔۔۔ہاہاہا ناز عجیب دیوانگی سے قہقہہ لگانے لگی۔
ناز۔۔۔۔۔۔۔!وہ ناز کو تھام کر اسکی آنکھوں میں جھانکی جہاں بے پناہ کرب نظر آیا۔
ناز تم بہت چھوٹی ہو۔۔۔۔اس قدر ٹینشن مت لو۔۔۔۔ان شاء اللہ ،اللہ نے چاہاتوسب ٹھیک ہوگا۔
تو دی آج آپ چھوٹی سی بغاوت کرہی ڈالیں۔۔امی کے اس حکم کی خلاف ورزی کرکے دکھائیں۔
امی کی اتنی چھوٹی سی خوشی کے خلاف بغاوت کردوں۔۔۔۔؟ ارے پگلی یہ کسی صورت ممکن نہیں۔میری ذات سے امی کو بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں،میں اپنی جان دے کر انھیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔وہ وزنی شرارہ اٹھا کر حمام کی جانب بڑھ گئی۔ناز ہو نقوں کی مانند اس پیاری سی بیٹی کو دیکھنے لگی جس کے اتنے اونچے خیالات تھے جسے اپنا کر دنیا کی ہر بیٹی فخر محسوس کرتی
( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: