Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نقل اور عقل ساتھ نہیں رہ سکتے

***وسعت اللہ خان ***
پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ کے زیرِ اہتمام ظفر اللہ خان کے مرتب کردہ بنیادی حقوق کے کتابچے کے مطابق اب سے 104 برس پہلے یعنی1912ء میں انڈین لیجسلیٹو کونسل میں گوپال کرشن گھوکھلے نے تمام ہندوستانیوں کے لئے لازمی پرائمری ایجوکیشن کا بل پیش کیا۔کونسل کے ایک آنر ایبل ممبر محمد علی جناح نے اس بل کی مکمل حمائیت کرتے ہوئے  اپنے خطاب میں کہا  کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ تعلیم عام ہوگئی تو لوگ باشعور ہو جائیں گے اور مزید حقوق مانگیں گے۔تو کیا آپ اس خدشے کے سبب کروڑوں لوگوں کو اپنے جوتے تلے رکھنا چاہتے ہیں۔کیا آپ انہیں محض اس لئے جہالت اور تاریکی میں رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں وہ ایک دن آپ کے مدِ مقابل کھڑے ہو کر وہی حقوق نہ مانگ لیں جو آپ کو حاصل ہیں۔جناح صاحب نے پرائمری تعلیم کے بل کی حمایت کرتے کرتے ایک کمال کی پیش گوئی کی۔یعنی ’’ ہمیں پختہ یقین ہے کہ لازمی تعلیم  کا اصول مانے بغیر عوام کے لئے کوئی راہِ نجات ممکن نہیں۔تاہم تمام بچوں کو اسکول بھیجنے میں پونے دو سو سال لگیں گے ( یعنی 2087ء تک )۔
جناح صاحب نے جو پیش گوئی1912ء میں کی۔آج 2016ء میں جاری یونیسکو گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ میں جناح صاحب کی پیش گوئی ( 2087 ء ) کو بالکل قریب سے چھوتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امکان یہ ہے کہ پاکستان میں2051 ء تک ہی 100 فیصد بچے اسکول جا پائیں گے۔جناح صاحب نے اسی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ تمام بچیاں اسکول جا سکیں اس کے لئے کم ازکم 600 برس   (2512ء ) درکار ہیں۔
پاکستان میں فروغِ تعلیم کے تمام تر اعشاریے اور پچھلے 70 برس کی پیش رفت بتا رہی ہے کہ یہ قوم جناح صاحب کے کسی اور فرمان پر عمل کرے نہ کرے یونیورسل ایجوکیشن کے بارے میں جناح صاحب کی دونوں پیش گوئیاں سچ ثابت کرنے کے لئے عملاً کمر بستہ ہے۔
پاکستان میں ہر سال 2 مہمات بہت جوش و خروش سے چلائی جاتی ہیں۔ایک شجرکاری کی باتصویر مہم جس میں ہر سال دعوی کیا جاتا ہے کہ اتنے کروڑ درخت لگائے گئے اور اگلے برس پھر اتنے ہی درخت لگائے جاتے ہیں۔اگر اب تک کی تمام سالانہ شجر کاری مہمات کو جمع کر کے ان پر یقین کر لیا جائے تو اس اعتبار سے آج پاکستان کا ایک انچ بھی بنجر دکھائی نہیں دینا چاہئے۔مگر حالت یہ ہے کہ ہر شجر کاری مہم کے ساتھ جنگلاتی رقبہ ہر برس پہلے سے زیادہ کم ہوتا جا رہا  ہے۔عالمی پیمانے کے اعتبار سے آئیڈیل صورتِ حال تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا بیس تا پچیس فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہئے مگر اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 4 فیصد سے بھی کم رقبے پر جنگلات باقی بچے ہیں۔
دوسری مہم ہے پہلی تا پانچویں جماعت کی پرائمری تعلیم میں بچوں کی انرولمنٹ مہم۔شجرکاری کی طرح بچوں کے داخلے کی سالانہ مہم بھی بہت جوش سے چلتی ہے۔ اگر سرکاری و ادارتی دعوئوں پر یقین کر کے تمام اگلے پچھلے انرولمنٹس پر یقین کر لیا جائے تو اس وقت پاکستان میں ابتدائی خواندگی سویڈن کے برابر ہونی چاہئے۔مگر ایسا ہے تو نہیں۔
تعلیمی پسماندگی برقرار رکھنے میں جہاں سرکاری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی کوتاہیاں ہیں وہیں کچھ بابا آدم کے زمانے سے چلے آ رہے تصورات بھی ہیں مثلاً یہی کہ والدین غربت یا دیگر نامساعد حالات کے سبب اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور ان کی سوچ یہی ہے کہ اسکول میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچہ کسی مستری کے پاس بٹھا دیا جائے یا چائے کے ہوٹل پر کام کرکے کچھ پیسے کما لے۔
ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن اسے میڈیا کا دباؤ کہہ لیں یا آس پاس کے بدلتے ماحول کا اثر کہ ان پڑھ والدین کی ایک بڑی تعداد بھی آج یہ چاہتی ہے کہ ان کے بچے کچھ نہ کچھ پڑھ لکھ جائیں۔اس کے لئے وہ اپنا پیٹ کاٹنے پر بھی تیار ہیں۔مگر شہری علاقوں میں بالخصوص ایسے والدین کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسکول کم ہیں اور داخلے کے خواہش مند بچے زیادہ۔یعنی شہری نجی و سرکاری تعلیمی نظام  میں مسئلہ انرولمنٹ سے زیادہ گنجائش یا تعلیم کے پیاسے والدین کے بچوں کی بڑھتی تعداد جذب کرنے کی صلاحیت کا ہے۔
اس سے بھی زیادہ سنگین سوال یہ ہے کہ جن بچوں کا انرولمنٹ ہو چکا ہے انہیں تعلیم کے نام پر کیا مل رہا ہے ؟ گذشتہ دنوں میں نے بلوچستان اور سندھ میں تعلیم کی زبوں حالی کا رونا رویا۔مگر معیاری تعلیم ان علاقوں میں بھی عنقا ہے جہاں بظاہر انرولمنٹ سب سے زیادہ ہے۔
  بلوچستان اور سندھ کے مقابلے میں خیبر پختون خوا  میں معیارِ تعلیم بس اتنا بہتر ہوا ہے کہ اگر سندھ میں پانچویں کلاس کے76 فیصد بچے انگریزی کا ایک جملہ بھی درست نہیں لکھ سکتے تو خیبر پختون خوا  میں58 فیصد بچے انگریزی کا ایک جملہ درست نہیں لکھ سکتے۔اگر سندھ میں 65 فیصد بچے دو اعداد کو تقسیم نہیں کرسکتے تو خیبر پختون خواہ میں بنیادی ریاضی سے نابلد بچوں کی تعداد60 فیصد ہے۔اگر سندھ میں پانچویں کلاس کے55 فیصد بچے اردو یا سندھی کی ایک چھوٹی سی کہانی کی مکمل ریڈنگ نہیں کر سکتے تو خیبر پختون خوا میں62 فیصد بچے اردو یا پشتو کی ایک سادہ سی کہانی پوری نہیں پڑھ سکتے۔
اور پاکستان میں جو طلبا ان تمام رکاوٹوں کو عبورکرتے ہوئے  ہائر سیکنڈری ، گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کی منازل طے کرنے کامیاب ہو چکے ہیں  ان کی اکثریت تجزیہ و تنقید کی صلاحیت تو رہی ایک طرف ،اپنی طرف سے  ایک مناسب سوال اٹھانے یا ٹیچر کو عقلی انداز میں چیلنج کرنے یا جوابی دلیل پیش کرنے سے بھی عاری ہے۔اس منطقی مفلوجیت کا ایک بنیادی سبب ماہرِ تعلیم پرویز ہود بھائی کے بقول یہ ہے کہ میٹرک سے گریجویشن تک نقل سے پاس ہونے کے رجہان کا تناسب40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نقل اور عقل ایک میان میں نہیں رہ  سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
 

شیئر: