Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج بیت اللہ ، انسانی حقوق کا محافظ

بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں جو چاہے کرلے، آخر میں حج ادا کرلے تووہ غلطیوں سے بالکل پاک ہوجائے گا

 

* * ڈاکٹر انجم ظہور ۔ جدہ* *
  جب اللہ تعالیٰ کسی مومن بندے کو فریضۂ حج کی ادائیگی کی نعمت سے نوازتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا بندہ خوشی سے سرشار ہوجاتا ہے، اس کا پورا وجود فرط مسرت سے جھوم اٹھتا ہے، اس پر خشوع و خضوع کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اب اسے بہت بڑا فرض ادا کرنا ہے۔ اسے یہ فرض انتہائی ایمانداری سے انجام د یتا ہے۔ مومن بندہ کیف کے عالم میں سجدۂ شکر بجا لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حج کی قبولیت اور حج کو اسکے حقیقی تقاضوں کے مطابق مکمل کرنے میں مدد کی دعائیں کرنے لگتا ہے۔
    حج سچ مچ بڑی ذمہ داری کا عمل ہے۔ حج قول و عمل میں صدق و اخلاص، قلبی پاکیزگی اور اندرونی صفائی و روشنی چاہتا ہے۔
    سفر حج کی تیاری خاص محنت چاہتی ہے۔ یہ تیاری خاص محنت کیوں چاہتی ہے ؟یہ اہم سوال ہے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ جب مومن بندہ دنیاوی آلائشوں اور نفسانی خواہشوں سے پاک و صاف ہوکر سفرِ حج پر روانہ ہونے کا عزم کرتا ہے تو اسکے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے مکمل تابعداری کے سوا کوئی اور جذبہ نہیں ہوتا۔ اسکا دل صرف اور صر ف اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہوتا ہے ،وہ اللہ کی رحمت کی طلب اور اسکی خوشنودی کے حصول کے لئے وطن اور اہل و عیال کو الوداع کہہ کر گھر سے نکلتا ہے۔
    عازمِ حج سب سے پہلا کام یہ کرتا ہے کہ وہ اپنے دل ، دماغ، روح ، وجود اور شعور اور وجدان کو دنیا بھر کی آلائشوں سے پاک صاف کرلیتا ہے۔ وہ اپنے اقوال و اعمال کا محاسبہ کرتا ہے، وہ اپنے نفس کا ہر لحاظ سے احتساب کرتا ہے،وہ سفر حج کے لئے روانہ ہونے سے قبل دوسروں کے ساتھ اپنے سلوک کے جملہ واقعات تازہ کرکے ایسے تمام لوگوں سے جن کے حق میں اس سے کوئی کوتاہی یا حق تلفی یا اذیت رسائی ہوئی ہو تو وہ ان سب سے عفو و درگزر کا طلب گار ہوتا ہے۔ اسکی سوچ یہ ہوتی ہے کہ میں ایسے سفر پر جارہا ہوں جس سے واپس آؤنگا تو روحانی طور پر نیا جنم لیکر آؤنگا اور یہ اسی وقت ہوسکے گا جب میں اللہ تعالیٰ کے ان بندوں سے جن پر میں نے ظلم کیا ہے معافی طلب کرلوں، میں اُن سے معافی مانگوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردیگا۔
    بندوں کے حقوق کی پاسداری کیلئے کمالِ مغفرت اور کمالِ توبہ کی شرط ہے۔ سورہ نوح کی آیت 4-2میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم دیکھئے’’تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،اللہ تمہارے گناہوں سے درگزرفرمائے گا۔‘‘
    اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ نہیں کہا کہ وہ بندوں کے تمام گناہ معاف کردیگا۔ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ تمہارے کچھ گناہ معاف کردیگا یعنی کچھ گناہ ایسے ہونگے جن کا تعلق بندوں سے ہوگا اور جب تک بندے وہ گناہ معاف نہیں کرینگے تب تک وہ گناہ معاف نہیں ہونگے۔
    سوال یہ ہے کہ ظلم کیا ہے؟ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں جو چاہے کرلے آخر میں فریضہ حج ادا کرکے ایسا ہوجائے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن گناہوں اور غلطیوں سے بالکل پاک و صاف تھا۔
    لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ کوئی بھی انسان خود کو دوسروں پر ظلم کرنے ، اذیت پہنچانے اور بدسلوکی کا مجاز کیوں کر ہوسکتا ہے؟ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک انسان دنیا بھر کے لوگوں پر ظلم و ستم کرے اور ان کے معاف کئے بغیر وہ حج کرکے ایسا ہوجائے جیسا کہ اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک و صاف تھا؟
    قرآن کریم نے ظلم کی بڑی عجیب و غریب تصویر کھینچی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظلم کرنے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے،اللہ تعالیٰ نے مظلوموں کی مدد کا وعدہ بھی کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے مظلوموں کو اطمینان بھی دلایا ہے۔ قرآن کریم میں تو یہاں تک ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کو بدکلامی کے مظاہرے کی اجازت نہیں دیتا البتہ مظلوم اس سے مستثنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مظلوموں کو اونچی آوا ز میں ظالم کے خلاف شکوے شکایت کی اجازت دی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ جب کسی انسان پر ظلم ہوتا ہے تو اسکے اندر غصے کا لاوا بنتا اور پھٹتا ہے۔ ظالم لوگ عام طور پر مغرور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھتے، انکے پیش نظر محض نجی مفاد ہوتا ہے، وہ یہ مفاد دوسروں کی گردنوں پر پیر رکھ کر بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
     ظلم 3طرح کے ہوتے ہیں:
    ٭ ایک ظلم تو وہ ہے جو بندہ اپنے رب پر کرتا ہے۔یہ کفر ، شرک اور نفاق کی صورت میں نمودار ہوتا ہے،یہ بڑا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔
    ٭ ظلم کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان خود اپنے اوپر ستم ڈھاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جن عبادتوں کی ادائیگی کا پابند بنایاہے وہ ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسکا تذکرہ سورہ فاطر کی آیت 32میں کیا ہے، ترجمہ دیکھیں’’اب تو کوئی ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ اس قسم کا ظلم کرنے والوں کو اپنی مرضی سے معاف کردیتے ہیں۔
    ٭ظلم کی تیسری قسم یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے۔ کسی کا حق مارلینا ، کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دینا ۔ اپنے اثر و نفوذ کو استعمال کرلینا، ناحق لوگوں کو ذلیل و خوار کرنا۔ یہ سب دوسروں پر ظلم کی مختلف شکلیں و صورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا تذکرہ سورہ شوریٰ کی آیت 42میں کیا ہے، مفہوم دیکھیں’’ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔‘‘اس قسم کاظلم توبہ کا طلب گار ہوتا ہے،توبہ کے ساتھ عملی سلوک بھی اصلاح پسندانہ ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص نے دوسرے پر ظلم کیا تو اس پر سفر حج کے لئے روانہ ہونے سے قبل اس شخص کا دل صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
    اللہ تعالیٰ پر ظلم ہو یا بندے پر ظلم ہو یا خود اپنے آپ پر ظلم ہو تینوں کا خمیازہ خود اس انسان کو بھگتنا پڑتا ہے جس نے ان تینوں پر ظلم ڈھائے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مشرک کو معاف نہ کرنے کا انتباہ دے رکھا ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز سکتا ہے۔ بندوں پر ظلم کرنے والے کو مظلومین سے معافی طلب کرنا ہوتی ہے، سورہ غافر کی آیت 7میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ دیکھیں’’ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔ بس معاف کردے اوردوزخ کے عذاب سے بچالے۔ ‘‘
    سورۃالاعراف کی آیت  156میں ارشاد الہٰی کا ترجمہ دیکھیں’’مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔‘‘
    سورۃ النساء کی آیت نمبر 48کا ترجمہ دیکھیں’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا اسکے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لئے یہ چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔‘‘
    جو انسان اخلاص کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اس پر سورۃ الفرقان کی آیت 70میں مذکور اللہ تعالیٰ کا یہ کلام لاگو ہوتا ہے، ترجمہ دیکھیں’’الا یہ کہ (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دیگا اور وہ بڑا غفور ورحیم ہے۔‘‘
    گناہ کا احساس انسان کو بے چین کردیتا ہے اور احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں گناہ کے احساس کا علاج توبہ کی شکل میں بتایا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی روشنی جگمگانے لگتی ہے،اس سے بے چینی کی حدت کم ہوجاتی ہے۔
    توبہ سے انسان اپنی اصلاح کرلیتا ہے اور دوبارہ گناہوں اور غلطیو ںکے راستے پر چلنے سے رک جاتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو انسان میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنی قدر خود کرنے لگتا ہے، اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت 53میں ارشاد فرماتاہے، ترجمہ دیکھیں’’اے نبی() !کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘
    توبہ حقیقی معرفت، قلب پر پختہ ایمان اور یقین محکم کا نام ہے۔ اگر انسان پکی توبہ کرلے تو عرفان ذات کے نتیجے میں اس کا ذہن بیدار ہوجاتا ہے، اسکا دل دکھتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کیو جہ سے ملول ہوجاتا ہے۔
    مرد مومن کا یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرکے گناہ معاف کردیتا ہے اوراللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا یہ عقیدہ انسان کو توبہ و مغفرت طلبی کی تحریک دیتا ہے۔ گناہوں کی معافی کی امید پر برائیوں سے دوری پر آمادہ کرتا ہے۔
    حج لہو و لعب میں پھنسے ہوئے انسان اور ذکر الٰہی سے غافل قلب کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ  بنانے ،زندگی بھر کی غلطیوں کا احتساب  کرنے، گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہونے اور رب سے بغاوت کی زندگی ترک کرنے کا زریں موقع ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - -ظاہری اور باطنی تطہیر کا وسیلہ ، حج

شیئر: