Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خارجہ پالیسی کے خدوخال

***سید شکیل احمد***
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکڑ محمد فیصل نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ وزیر اعظم عمر ان خان اور امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ ترجما ن کے مطا بق امریکی وزارت خارجہ کی جا نب سے اس سلسلے میں جا ری بیا ن حقائق کے برعکس ہے اور انھو ں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس کی فوری تصحیح بھی کی جا ئے ۔واضح رہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی جا نب سے جاری بیان میںکہا گیا ہے کہ مائیک پو مپیو نے وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فو ن پر رابطہ کیا جس کے دوران انھو ں نے دوطرفہ تعمیر ی تعلقات کے لیے مل کر کا م کر نے کی خواہش کا بھی اظہا ر کیا ۔ بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ مائیک پو مپیو نے تما م دہشت گردو ں کے خلا ف فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کی اہمیت کا بھی ذکر کیا ۔
      جب دونو ں ممالک کی جانب سے اس ٹیلی فونک بات چیت کے بارے میں تضادات منکشف ہوئے تو امریکی وزارت خارجہ کے ترجما ن سے ان کی پر یس کا نفرنس کے دوران پو چھا گیا کہ کیا ٹیلی فون کی گفتگو میں دہشت گردی زیر بحث آئی تھی یا نہیں تو ترجما ن کا کہنا تھاکہ واشنگٹن اپنے ابتدائی بیان پر قائم ہے ۔ جب کبھی کسی بھی ملک میں اقتدار کی منتقلی ہو ا کرتی ہے تو ایسے مواقع پر دوسرے ممالک کے سربراہا ن مملکت ، سربراہان انتظامیہ اور خارجہ امو ر سے تعلق رکھنے والا خیر مقدمی طور پر اقتدار سنبھالنے والو ں سے خیر سگالی کے طور پر اور مستقبل کی امیدو ں کیلئے مختلف انداز میں رابطے کیا کر تے ہیں ، چنا نچہ ایسے مواقع پر پا لیسی ساز بات چیت یا مذاکر ات کے اند از میں کوئی رابطہ نہیں ہو ا کرتا ۔ امریکی وزیر خا رجہ کی جانب سے 5ستمبر کو پاکستان کے متوقع دورہ کی خبریں پہلے سے آرہی تھیں۔ تاہم توقع یہی تھی کہ جب امریکی وزیر خارجہ پا کستان آئیں گے تو با قاعدہ سرکا ری طو رپر رابطہ کا آغاز بھی ہو گا اور باہمی تعلقات کے بارے میں بات چیت بھی ہو جائے گی۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے متوقع دورے کے بارے میں بھی کچھ نہ کہا اور ان کی آمد یا نہ آمد سے قبل ہی ایک تنا زعہ پیدا ہو گیا ۔ اس متنا زعہ معاملے پر دونو ں ممالک ڈٹ بھی گئے ہیں ۔ 
           جنو بی ایشیا کی صورت حال اور اس میں امریکی کر دار کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کے درمیان جہا ں قریبی تعلقات کی ضرورت محسو س کی جا تی ہے وہا ں اس امر کو بھی لا زمی سمجھا جا تا ہے کہ خطے میں خوشحالی ، پائیدار امن کے لیے پا کستان اور امریکا کے درمیان خوشگوار انداز میں ہم آہنگی پائی جا ئے ، تاہم اس نئی صورت حال میں پاکستان کی خارجہ پا لیسی کے خدوخا ل کیا ہو تے ہیں اس بارے میں وزیر خارجہ پاکستان کا بیان اہمیت کا حامل ہے وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے بھی وزیر اعظم عمر ان خان کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ پو مپیو کی گفتگو کے حوالے سے امریکی مو قف کا مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ وقت بہت بدل گیا ہے ، پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا ، سیا سی جہتیں مشرق کی طر ف جا رہی ہیں، ظاہر ہے کہ زما نے کو ثبات کب ہو تا ہے  ۔
وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی وزارت خارجہ کا تجر بہ رکھتے ہیں اور وہ امریکا کے زخم خوردہ بھی ہیں کیو ں کہ پی پی کے دورحکومت میں جب وہ وزیر خارجہ تھے تو ریمنڈ ڈیو س کا واقعہ رونما ہو اتھا ، جس پر ان کا مو قف پی پی کی حکومت سے مختلف تھا۔وہ سفارتی استثنٰی سے لے کر کسی قسم کی مر عات ریمنڈڈیو س کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنا نچہ آصف زرداری نے امریکی دباؤ پر وفاقی کابینہ میں رد وبدل کر وایا او ر اس طرح شاہ محمد قریشی سے وزارت خارجہ لے لی گئی جس پر وہ نا راض ہوئے اور جو اباً عمر ان خان کی ٹیم کا حصہ بن گئے چنا نچہ جس وزارت سے فارغ کیے گئے تھا وہا ں وہ 7 سال کے بعد دوبارہ براجمان ہوگئے مگر ان کا اب کہنا یہ ہے کہ7 سال پہے جو حالات وہ چھو ڑ گئے تھے آج حالا ت اس سے یکسر مختلف ہیں ۔انھو ں نے جب دوبارہ یہ عہد ہ سنبھالا تو کہا کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی پا کستان کی وزارت خارجہ کے اندر ہی بنا کر ے گی ، اگر ایسا ہو اتو یہ یقینی بہت بڑی تبدیلی کہلا ئے گی ۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ اس بارے میں ان کی وزارت کی طرف سے کو تاہی ہوئی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم عمر ان خان نے اعلا ن کررکھا ہے کہ وہ پروٹوکول کا تکلف نہیں کر یں گے مگر پر وٹوکول کی اپنی اپنی اقسام ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ہر قسم کے پروٹو کول سے آزاد رہیںگے۔ ایسا ممکن بھی نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے ، جس پر وٹوکول سے انھو ں نے پرہیز کا اعلا ن کیا ہے وہ ان کی نقل وحمل کے دوران سڑکو ں کی بندش ، حفاظتی اقدام کے نا م پر سیکو رٹی کے عملہ کا جلو س کی شکل میں عمر ان خان کو حصار میں رکھنا وغیر ہ مگر ایک پر وٹو کول ہو تا ہے جو غیر ملکی تعلقات سے متعلق ہوا کرتا ہے ، ساری دنیا میں اس پر وٹوکول پر عمل کیاجاتا ہے اوریہ اصولی بھی ہے مثلا بات چیت میں جب دوممالک حصہ لیتے ہیں تو وہ برابری کی بنیا د پر۔ اس طرح ہو تا ہے کہ سربراہ مملکت دوسرے ملک کے سربراہ مملکت سے ہی بات چیت کر تا ہے۔ استقبال کر تا ہے ایسا نہیں ہو ا کرتا کہ کسی ملک کا سیکرٹری خارجہ تشریف لا رہا ہو اور اس ملک کا سربراہ مملکت یا سربراہ انتظامیہ (وزیر اعظم ) اس کے استقبال کیلئے پہنچ جائے۔اس بارے میں اے این پی کے ترجمان زاہد خان نے صیح استفسار کیا ہے کہ کیا وزارت خارجہ کو معلو م تھا کہ امریکی وزیر خارجہ کی ٹیلی فون کال وزیر اعظم کو آرہی ہے یا آئی ہے۔اگر پہلے سے علم تھا تو یہ کال عالمی پر وٹوکول کے مطا بق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آنا چاہیے تھی یا ان کو اٹینڈ کر نا چاہیے تھی کہ اب امریکی وزیر خارجہ پاکستان کے وزیر اعظم کی با ت کو رد کر رہے ہیں۔ عالمی اصول بھی یہ ہے کہ وزیر خارجہ کی سطح پر رابطہ کر ایا جا تا ، وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ ایسی کا ل کو اپنے وزیر خارجہ کی طرف کر نے کی ہدایت کر تے خود کلا م نہ کرتے ۔ 
    حفظ مراتب کے کچھ تقاضے ہو تے ہیں ۔ جس سطح کی پا کستان کے وزیر اعظم سے بات چیت کا امریکی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے وہ وزارت خارجہ کی سطح پر ہی ہو سکتی ہے ۔ امریکا اپنے مو قف کہا ں تک سچا ہے اس بارے میں بہتر طریقہ یہ رہے گا کہ اس سطح پر ٹیلی فونک رابطہ کو ریکا رڈ کیا جا تا ہے چنا نچہ ٹیلی فون کی بات چیت کا ریکا رڈ نکا ل کر عوام کے سامنے پیش کردیا جائے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا امریکی وزارت خارجہ کا بھی پول کھول جائے گا ۔تاہم پا کستان کے وقار اور احترام کے لیے عالمی روابط کے طورطریقوں کو ہی اپنانا ہو گا ۔
               
 

شیئر: