Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علم کا پٹواری کون ہے

***وسعت اللہ خان ***
ہر سال30 ستمبر کو عالمی یومِ ترجمہ منایا جاتا ہے 
یہ ’’ تراجم ’’  کا کارخانہ ہے 
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا 
اب سے بارہ برس پہلے مجھے پٹیالہ یونیورسٹی  اور وہاں ترجمے کا کام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔شعبے کے انچارج گردیو اروڑا صاحب سے گفتگو میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ کسی تہذیب کا رسم الخط تبدیل ہونا بسا اوقات کتنا بڑا المیہ بن جاتا ہے۔انچارج صاحب نے بتایا کہ نئی نسل چونکہ صرف گرمکھی سے واقف ہے لہذا وہ شاہ مکھی میں موجود پنجابی کے وسیع علمی خزانے سے محروم ہو چکی ہے۔ہمارے پاس پاکستان سے پنجابی میں بہت سی کتابیں آتی ہیں مگر ان کو پڑھ کے گرمکھی میں منتقل کرنے کا کام صرف وہ تین چار  بزرگ ہی  کر سکتے ہیں جنہوں نے تقسیم سے پہلے عربی فارسی رسم الخط میں تعلیم حاصل کی۔اب یہ انتظام کیا گیا کہ پٹیالہ یونیورسٹی سے جو بھی طالبِ علم پنجابی میں ایم فل یا ڈاکٹریٹ کرتا ہے اسے پہلے سال میں شاہ مکھی سیکھنا پڑتی ہے۔تاکہ گلشنِ ترجمہ کا کاروبار آئندہ بھی چلتا رہے۔شکر ہے بلھے شاہ اور وارث شاہ گورمکھی میں منتقل ہو گیا ورنہ ہماری نئی نسل اس سے بھی جاتی۔
مجھے اس وقت پراگ بھی یاد آ رہا ہے۔جہاں 4 مہینے قیام کے دوران احساس ہوا کہ ترجمے کا فن اور اس کی سرکاری سرپرستی کتنا بڑا قومی خدمت کا کام ہے۔چیک ری پبلک کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے اور دارالحکومت پراگ میں 3 بڑے بک ا سٹورز میں تازہ ترین عالمی فکشن اور نان فکشن بھرا پڑا ہے۔ایک بک  اسٹور کے مالک نے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جو ہمیں درکار ہو وہ زیادہ سے زیادہ 4 ماہ کے اندر چیک زبان میں منتقل نہ ہو جائے۔چیک ری پبلک میں جو لوگ ترجمے کا کام کرتے ہیں۔انہیں اس فن کے ہوتے اپنی مالی آسودگی برقرار رکھنے کے لئے کوئی اور کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔وہاں اچھا مترجم وہ مانا جاتا ہے جسے چیک کے علاوہ کم ازکم 2 بڑی عالمی زبانیں آتی ہوں۔اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کیونکہ اسکول کی سطح پر ہر بچے کو اہم یورپی زبانوں  میں سے کوئی ایک زبان ضرور پڑھنا پڑتی ہے۔میں نے اسی بک  اسٹور میں  محمد حنیف کا ناول ’’ اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز ’’  کا چیک ترجمہ ایک بک شیلف  میں پڑا ہوا پایا۔حالانکہ اصل ناول  انگریزی میں صرف تین ماہ پہلے شائع ہوا تھا۔اس کے بعد مجھے چیک ری پبلک کے ٹرانسلیشن کلچر کے بارے میں  کسی سے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔
اگرچہ پاکستان ایک وفاق ہے مگر وفاقی اکائیوں کی باہمی اجنبیت کا ایک بنیادی سبب عدم ترجمہ بھی ہے۔مثلاً کتنے وفاق پرست جانتے ہیں  کہ سندھی فکشن اور نان فکشن کس سطح کا اور کتنی مقدار میں ہے۔پچھلے 150 برس میں ادب ، شاعری ، تاریخ اور سیاست پر سندھی زبان میں جتنا کچھ لکھا گیا۔ہم اس کے5 فیصد سے بھی واقف نہیں۔اگر پچھلے70 برس میں یہی کام ہو جاتا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کا 25 فیصد حزانہ بھی اردو یا انگریزی میں منتقل ہوجاتا تو آج وفاق کے4 یونٹوں کے لوگ ایک دوسرے کے لئے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو واقعی جان سکتے
میں پچھلے38 برس سے ذرائع ابلاغ سے منسلک ہوں۔اس عرصے میں غلط یا صحیح میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ترجمے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو کم ازکم ایک زبان پر دسترس ہو۔اگر آپ انگریزی سے اردو ترجمے کا کام کر رہے ہوں تو انگریزی بھلے اتنی اچھی نہ بھی ہو لیکن اردو کے لسانی و استعاراتی و علاقائی قواعد ، محاورے ، روزمرہ اور لہجوں سے آپ کو بنیادی واقفیت ضرور ہونی چاہئے۔اگر آپ نے خدانخواستہ اس فن کو آسان جانا اور یہ فرض کرلیا کہ ترجمہ کرنا کون سا مسئلہ ہے ڈکشنری سامنے رکھو اور ترجمہ کر لو۔بس یہیں سے آپ کی فنی بربادی شروع ہوجاتی ہے۔
ایک صحافتی اپرنٹس کوایک خبر ترجمے کے لئے دی گئی جس میں ایک جملہ یہ بھی تھا  کہ ’’ فارن منسٹر گوہر ایوب سیڈ پاکستان از ناٹ بنانا ری پبلک ’’۔  غریب اپرنٹس نے اس کا ترجمہ کیا کہ ’’وزیرِ خارجہ گوہر ایوب نے کہا ہے کہ پاکستان کوئی کیلا جمہوریہ نہیں ہے ’’ 
ڈکشنری زدہ نو وارد و نوزائدہ صحافیوں کو بعض اوقات یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ جملے کو سب سے پہلے دھیان سے پڑھا جائے۔اگر سمجھ میں نہیں آ رہا تو کسی سے مفہوم پوچھ لیا جائے۔اگر ایک لفظ یا اصطلاح کے5یا 6 مختلف معنی ہیں تو ان میں سے مناسب معنی کے بارے میں مشورہ لینے یا پوچھنے سے توہین ہرگز نہیں ہوتی بلکہ مترجم بعد میں پے در پے شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔اور جب تک آپ عصری علوم اور لٹریچر سے کما حقہ نہ سہی واجبی واقف بھی نہ ہوں گے تو  ڈکشنری کی تلوار  آپ کو ہارا کاری کروانے کے لئے کافی ہے۔ 
آج  صورت یہ ہے کہ بولی اور زبان میں تمیز ختم ہو گئی ہے۔اکثر صحافیوں نے زبان کاغذ پر پڑھی نہیں بلکہ سنی ہے۔اس سنی ان سنی کے نتیجے میں اپنے بہت سے ابلاغی ساتھیوں کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ خدانخواستہ بہرے ہوتے تو جاہل ہوتے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ’’ وی ول لیو نو  اسٹون ان ٹرنڈ ’’  کا ترجمہ یہی کیا جائے کہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا۔اس کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے’’۔لیکن اگر مجھے ’’ وی ول لیو نو سٹون ان ٹرنڈ ’’ جیسے عام سے محاورے کا ترجمہ یہ ملے کہ ہم ہر پتھر اکھاڑ پھینکیں گے تو پھر مجھے بھی یہ حق دیں کہ یہی پتھر میں مترجم پر نہ سہی اپنے ہی سر پے مار لوں۔ترجمہ لفظ کا نہیں تحریر کا ہوتا ہے اور سب سے اچھا ترجمہ تحریر کا نہیں مصنف کا کیا جاتا ہے۔ 
 

شیئر: