ہم لوگ فریق ثانی کی رائے سننا کیوں نہیں چاہتے؟
عباس المعیوف ۔ الوطن
ہم میںسے بہت سارے لوگ اپنے عقائد کی بابت انحراف کے خوف میں حد درجہ مبتلا ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ عقائد کی بابت خوف بجا و برحق ہے۔ دینی فرض ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اغیار کو اپنی اچھی بری رائے پیش کرنے اور اسے سننے کے روادار کیوں نہیں۔ آخر ہم لوگ بدگمانی میں کیوں مبتلا رہتے ہیں۔ ہر وہ بات جو ہمیں مختلف لگتی ہے اُسے سیکولرازم کی پھبتی کس کر ایک طرف کیوں پھینک دیتے ہیں؟
اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اہل بیعتؓ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں انکی سوانح حیات میں لادینی عناصر ، فاسق و فاجر اور دینی اعتبار سے بدترین عناصر سے مکالمے کے بے شمار واقعات ملیں گے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اغیار کو اپنی رائے کہنے سے روک کر ہم لوگ انہیں اپنی فکر سے باز رہنے کا کوئی دندان شکن جواب دیدیتے ہیں یا ایسا کرکے ہم انہیں انحراف کی روش پر قائم رہنے کی حوصلہ افزائی تو نہیں کرتے؟
پرامن بقائے باہم کی بابت پوری دنیا یہ بات مان رہی ہے کہ بنی نوع انساں کو کرہ ارض پر زندہ رہنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مرنجان مرنج اسلوب اپنانا ضروری ہے۔ پرامن بقائے باہم کے بغیر زندگی کی بقاءکا تصورنہیں کیا جاسکتا۔ خود سوچئے کہ ایسا ملک جہاں فرقہ وارانہ جھگڑوں کا آتش فشاں بھڑکا ہوا ہو ، ایسا ملک جہاں خانہ جنگیوں کا غلبہ ہو وہاں روٹی کی کیا قیمت ہوگی؟ حق اور سچ یہی ہے کہ کسی بھی جھگڑے اور کسی بھی جنگ کی شروعات مذہبی اختلاف سے ہوتی ہے اور پھر معاملہ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ مذہبی علامتوں کی توہین اغیار کے خلاف جارحانہ عمل کی ایک شکل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک گروہ ایسا ہے جو مذہبی علامت کی تعریف کے سلسلے میں شدت پسندی اور ایک طرح سے انتہا پسندی کی روش اپنائے ہوئے ہے۔ میں نے جان بوجھ کر گفتگو کا دائرہ اسلام تک محدودرکھا ہے ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر لعن طعن ، دشنام طرازی اور الزام تراشی کا کلچر مختلف دھاروں کے درمیان گفت و شنید کا ہتھیار بن جائے تو اس سے عداوت کی ایسی فضا برپا ہوگی جو بدگمانی پیدا کرنے بلکہ اسے بڑھاوا دینے کا باعث بنے گی۔ یہی چیز معاشرے کے مختلف طبقوں اور تشکیلی عناصر کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بعض لوگ انا کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ ہمیشہ غرور کی کیفیت سے سرشار نظرآتے ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی شکل میں اغیار کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے۔ سماجی، سلامتی کی سطح پر بھی اغیار کو تسلیم کرنے کے روا دار نہیں۔ دن رات سوشل میڈیا پر خود سے مختلف فکر رکھنے والوں پر الزام تراشی کے گولے برساتے رہتے ہیں۔ اپنی فکر سے مختلف فکر پر لعن طعن کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ پسماندہ اور غیرحقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ جو فریق بھی دیگر فریقوں کو میدان سے ہٹانے کی کوشش کرے وہ ایک طرح سے غیر معقول غرور کی حالت میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ یہ طریقہ کار اپنا کر فریق ثانی کا دھڑن تختہ نہیں کرسکتا۔ آخر کار یہ سچائی ماننا ہی پڑیگی کہ دنیا بھر میں مذہبی ، نظریاتی جماعتیں ماضی میں بھی تھیں ۔ آج بھی ہیں اور آنے والے کل میں بھی رہیں گی۔ ایک مذہب کے ماننے والوں میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایک فرقے کے لوگ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک مسلک پر عمل پیرا بھی الگ الگ جہتوں میں سفر کرتے ہیں۔ دنیا میں رہنے کیلئے پرامن بقائے باہم کے اصول کو ماننا اور اغیار کی توہین نہ کرنا ازبس ضروری ہے۔
مسلمانوں کے ہر فرقے کے علامتی رہنما ہیں۔ کسی بھی فریق کو کشمکش کی آگ بھڑکانے کیلئے فریق ثانی کی علامتی شخصیتوں پر کیچڑ اچھالنے کا حق نہیں پہنچتا۔ اگر اس حقیقت کو صحیح معنوں میں نہ سمجھا گیا تو سارے فریق خسارے سے دوچار ہونگے۔ امت مسلمہ حالیہ برسوں کے دوران حقیقی آزمائش سے گزر رہی ہے۔ امت کے سمجھدار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ فرزندان اسلام کے درمیان فتنے بھڑکانے والوں سے نمٹیں اور اسے اسلامی اتحاد کیلئے مطلوب اولین ترجیحات میں شامل کریں۔
اگر ہم نے امت کے مفاد کو نجی ،فرقہ وارانہ مفادات پر ترجیح نہ دی تو ایسی صورت میں ہم سب لوگ امت کے دشمنوں کا لقمہ¿ تر بن جائیں گے۔ یہی ہمیں ہر روز نظر آرہا ہے۔ مسلمانوں میں تفرقہ ہماری روز مرہ کی زندگی کا معمول بن گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭