عالمی کمیشن کی رپورٹ میں شرمناک غلطیاں
احمد بن عثمان التویجری
آخری قسط
بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے یمن پر حوثیوں کے جرائم اور عرب اتحاد برائے یمن کی غلطیوں سے متعلق رپورٹ کی ایک فصل جنسی تشدد کےلئے مختص کی ہے۔ کمیشن نے بھیانک خلاف ورزیو ںکے دعوے بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ انہیں پڑھ کر صاف نظر آتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ دعوے کئے ہیں وہ یا تو حوثیوں کے ماتحت ہیں یا ان سے ہمدردی رکھنے والوں میں شامل ہیں۔ کمیشن نے آئین حکومت کے ماتحت علاقے یمن میں سیکیورٹی فورس ، سیکیورٹی بیلٹ فورس ، عالمی اتحاد فورس ، خصوصاً متحدہ عرب امارات کے فوجیوں پر خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات کا تذکرہ کیاہے۔ اس حوالے سے کئی فقرے توجہ طلب ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فقرے میں کہا گیا ہے کہ ”یہ یقین کرنے کیلئے ہمارے سامنے معقول اسباب ہیں کہ سرکاری ملازمین اور سیکیورٹی فورس کے جوانوں نے آبروریزی اور خطرناک تشدد کیا۔ ان لوگوں نے مختلف ممالک کے مہاجرین اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے منتقل ہونے والے مقامی شہریوں نیز خواتین اور بچوں کو اپنی ہو س کا ہدف بنایا۔ حکومت انسانی حقوق کے بین االاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کےلئے جواب دہ ہے۔ واقعات کا تعلق چونکہ لڑائی سے ہے لہذا بین الاقوامی قانون کے بموجب حکومت کا مواخذہ ہوگا۔ اس حوالے سے دیگر ذمہ دار ممالک بھی اپنے کئے کیلئے جوابدہ ہونگے“۔
عجیب بات یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں حوثیوں کے اُن سنگین جرائم کا قطعاً کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا جن کے ثبوت بھی مہیا ہیں۔ اتنا ہی نہیں کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حوثیوں کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ بس فقرہ نمبر 94میں سرسری انداز میں یہ کہنے پر اکتفا کیا ”سابقہ معلومات کے ساتھ یہ بات بھی ماہرین تک پہنچی ہے کہ یمن کے برسر پیکار متعدد فریقوں نے تشدد کے واقعات کے دعوے کئے ہیں۔ انکا تعلق 2015ءسے2018ءتک کا ہے۔ جن خلاف ورزیو ںکی بابت تحقیقات کی گئیں ان سے ایسا لگتاہے کہ متعدد برسرپیکار فریقو ںنے جنسی تشدد کی مزید وارداتیں کی ہونگی۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات درکار ہے“۔
قانونی تقاضا اور تحقیقا ت کا پیشہ ورانہ مطالبہ یہ تھا کہ کمیشن کسی بھی برسرپیکار فریق کی بابت کسی بھی الزام کا اس وقت تک تذکرہ نہ کرتا تاوقتیکہ الزام سے متعلق قانونی تحقیقات اپنے تقاضے پورے نہیں کرلیتی۔ الزام کا تذکرہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ فیلڈ سروے اور قانونی کارروائی ہر لحاظ سے مکمل کرلی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں ایسے نام درج کردیئے گئے ہیں جن کی بابت پوچھ گچھ اور حقیقت حال دریافت کرنے کیلئے مطلوب بنیادی امورپر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ اخلاقی اورقانونی پیشہ ورانہ شناخت کے حوالے سے بہت بڑی غلطی ہے۔
اندوہناک اور شرمناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے جسے انسانی حقوق کونسل نے عظیم الشان انسانی مہم تفویض کی تھی غیر جانبداری اور معمولی ترین پیشہ ورانہ تقاضے پورے نہیں کئے۔ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے ایسی بودی رپورٹ تیار کی جو علمی اور اصولی تقاضوں سے عاری ہے۔ امید یہ ہے کہ انسانی حقوق کونسل ان خامیوں اور کمزوریوں کا تدارک اس رپورٹ کو یکسر نظر انداز کرکے انجام دےگی۔ رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرکے ہی اس کی تلافی کی جاسکتی ہے۔انسانی حقوق کونسل کو چاہئے کہ وہ نیا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے اور ایسے ارکان کا تقرر کرے جو پیشہ ورانہ لحاظ سے زیادہ بہتر شکل میں کام کرنے کے اہل ہوں۔ زیادہ غیر جانبدار ہوں اور عدل و انصاف کے تقاضو ںکی تکمیل کیلئے اچھی شہر ت رکھتے ہوں۔
(بشکریہ: الحیاة)
(کالم نگارماہر آئین و انسانی حقوق و سربراہ تنظیم عالمی عدالت ہیں)
٭٭٭٭٭٭٭