Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قدرت نے اتنا اچھا شریک سفر دیا، مضبوط سہارا مل گیا،شگفتہ نیر

 
 
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
ماں جو عورت کاحسین ترین روپ ہے ، وہ دنیا کا سب سے حسین اور انوکھا رشتہ ہے۔ ہونٹوں سے ادا ہونے والایہ خوبصورت لفظ جتنا مختصر ہے ،معنی کے اعتبار سے اتنا ہی وسیع ہے۔ ماں جو بچے کو انگلی پکڑ کر انجان راستوں سے روشناس کراتی ہے ، زمانے کے نشیب و فراز سے محفوظ رکھنے کیلئے بچے کیلئے ہر لمحہ دعاگو رہتی ہے جس کا مقصد حیات ہی بچے کی بہترین تربیت ہوتا ہے۔ وہ ماں ہی ہوتی ہے جو اولاد کی تربیت بہترین خطوط پر کرسکتی ہے کیونکہ ابتدائی دور میں بچے کی شخصیت کورے کاغذ جیسی ہوتی ہے اس کورے کاغذ پر تحریر ہونے والا ہر لفظ بہت اہم ہوتا ہے۔ماں یہ ابتدائی درس اپنے بچے کو حرکات و سکنات ، عادات اور طور طریقے کی صورت میں سکھاتی ہے ۔ یہ ممتا ہی ہوتی ہے جو زندگی کی راہوں سے کانٹے چنکر انہیں اپنے دامن میںسمیٹ لیتی ہے اور اپنی اولاد پر ہر دم پھول نچھاور کرنے کی متمنی رہتی ہے ۔ 
موت بھی کائنات کی ایک بہت بڑی سچائی ہے کیونکہ جو بھی دنیا میں آتا ہے وہ اپنے مقررہ وقت پر زندگی کے قفس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اگرچہ زندگی بہت خوبصورت ہے لیکن اس میںبہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں کسی کی ماں اپنے لخت جگر کوبیچ راستے میں ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور اس کی ذمہ داری کوئی اور اٹھا لیتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ، بے شک کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ، ۔ وہ اس بوجھ کو اٹھانے کی ذمہ داری اسے ہی سونپتا ہے جو اسے اٹھانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہے۔
اردو نیوز میں ہوا کے دوش پر آج آپ کی ملاقات ایک ایسی ہستی سے کراتے ہیں جو نہ صرف سلجھی ہوئی بلکہ سلیقہ مندی کی بھی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ محترمہ شگفتہ نیر،اپنی پر خلوص شخصیت کی وجہ سے بہت جلد گھل مل جاتی ہیں ۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے ۔ محنتی خاتون ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سب اپنے لئے جیتے ہیں مگر انسان اگر دوسروں کیلئے کچھ کرتا ہے تو زندگی کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ شگفتہ کی باتیں سن کر خوشی سی محسوس ہونے لگی۔ ان کے والدین کا تعلق یوپی جبکہ والدہ کا دہلی سے رہا۔ والد پیشے کے اعتبار سے ٹھیکہ دار تھے ۔ فیملی ماشاءاللہ، کافی بڑی ہے۔ پلوٹھی کی اولاد ہونے کی وجہ سے ذمہ داریاں بہت رہیں۔ والدین کا بہت پیار ملا۔
محترمہ شگفتہ نے کہا کہ میرے والد چار بھائی تھے اور ان کی دو بہنیں تھیں ۔سب ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ہر وقت کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ الگ رہ رہے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ بچپن کزنز کے ساتھ بہت شاندار گزرا۔ میٹرک کا امتحان پاس کیا تو والدہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ میرے سارے بہن بھائی بہت چھوٹے تھے۔ میرے 13 بہن بھائی ہیں جن میں 8 بہنیں اور 5 بھائی ہیں۔ کالج سے جب گھر آتی تو والدہ کو تکلیف میں مبتلا پاتی۔ والدہ کو کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہوچکا تھا۔ ماں کو روز اس بیماری سے نبردآزما دیکھتی لیکن کچھ کر نہیں پاتی تھی۔ روز بروز ان کی حالت بگڑتی رہی۔
اسے بھی پڑھئے:ازدواجی سفر میں کوئی رنجش نہیں ہوئی، شہنیلا عظیم
ایف ایس سی کے امتحان کے بعد پڑھائی منقطع کرنا پڑی۔ چھوٹے بہن بھائیوں پر توجہ مرکوز کردی ۔ میرے اور ابو کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اماں کیسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں۔ جب میں بی اے کا پرائیویٹ امتحان دے رہی تھی تو ابو کے بہت ہی دیرینہ دوست کے بیٹے کا رشتہ آیا جو ہمارے محلے میںہی رہتے تھے۔ وہ ہمارے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ امی کی حالت دیکھتے ہوئے ابو نے رشتے کی فوری ہامی بھرلی۔ امتحان ختم ہوتے ہی شادی کی بات طے ہوگئی۔ میری شادی کے چند ماہ بعد ہی امی سب کو چھوڑ کرسفر آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ 
وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے۔ زخم آہستہ آہستہ بھرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے۔ میرا سسرال بھی اسی محلے میں تھا جہاں میرا میکا تھا۔ یہ باتیں یاد کرکے شگفتہ روہانسی ہوگئیں۔ کہنے لگیں قدرت نے مجھے اتنااچھا اور سلجھا ہوا شریک سفر دیا، انہوں نے میری پریشانیوں کو بانٹ لیا۔ مضبوط سہارا مل گیا۔ روز ہی میکے کا چکر لگاتی۔ سسرال والے بہت ہی اچھے ثابت ہوئے۔ 
امی کے انتقال کے بعد ابو کی صحت بھی گرتی رہی۔ وہ دل کے مریض ہو گئے۔ جب بھی گھر جاتی ابو کی دلجوئی کرتی، کچھ نہ کچھ پکا کر لے جاتی۔ بہنوں کو ہدایات دیتی کہ ابوجان کا زیادہ خیال رکھا جائے۔ 
2007 ءکی بات ہے کہ ابو کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ بھی ہم سب کو تنہاءچھوڑ گئے۔ والدین جہاں فانی سے کیا رخصت ہوئے ، بھائی بہنوں کے سر پر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں رہا۔ پتہ نہیں کہاں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے شوہر کو اتنی ہمت دی کہ ہم نے ماں باپ بن کرگھر سنبھالا۔ میں نے 8 میں سے 5 بہنوں کی شادیاں کیں۔ میرے شوہر نے انتظامات کرنے میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔ آج ماشاءاللہ، سب بہنیں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔میری دلی دعا ہے کہ اللہ کریم انہیں خوش اورشاد و آباد رکھے،آمین ۔
میری امی گھریلو خاتون تھیں ۔ وہ بہت سمجھدار اور سلیقہ مند تھیں۔ طبعاً نیک ، نرم مزاج ، نماز روزے کی پابند۔ کلام پاک بھی باقاعدگی سے پڑھتی تھیں۔ اسی طرح والد صاحب کا بھی یہی معمول تھا۔ وہ بھی بہت ہی ایماندار تھے ۔ ایمانداری پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ روکھی سوکھی کھا کر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے۔ گھر میں دولت کی کوئی خاص ریل پیل نہ تھی۔ 
میری بہنوں کے جو بھی رشتے آتے، ان کے بارے میں میرے شوہر چھان بین کرواتے پھر رشتہ طے ہوتا۔ میرے شوہر اگر ساتھ نہ دیتے تو میں اتنے بڑے فیصلے یوں تنہاءکبھی نہیں کر پاتی۔ اللہ کریم کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اتنے شریک سفر سے نوازا ۔ان کا مزاج بھی بہت نرم ہے۔ آج تک کبھی انہوں نے مجھ سے اونچی آواز میں بات نہیں کی ۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوبھی جاتی ہے تو بڑے ہی آرام اور تحمل سے نشاندہی کرتے ہوئے سمجھا دیتے ہیں۔ بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ دعا ہے کہ میری بیٹی کو بھی اللہ تعالیٰ ایسا ہی شوہر عطا فرمائے، آمین۔ 
میرے شوہر سید نیر علی ینبع کالج میں سینیئر پروفیسر ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں 10 سال تک بحریہ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ نیر کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ میرے سسر پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ 
نیر سے میری شادی 2002 ءمیںہوئی۔ شوہر کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ سب ہی اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ میری زندگی کا سب سے خوبصورت اور حسین لمحہ وہ تھا جب میں خود ماں بنی۔ اللہ کریم نے مجھے یہ عظمت عطافرمائی ۔جب میرے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس دن مجھے معلوم ہوا کہ واقعی ماں کتنی بڑی دولت کا نام ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد 10، بارہ سال تک سسرال میں مشترکہ خاندانی نظام میں رہی۔ وہاں صرف ساس کا حکم چلتا تھا۔ بعدازاں 2012ءمیں شوہر کی ینبع کالج میں بطور سینیئر پروفیسر تقرری ہوگئی اور یوں ہم سعودی عرب آگئے۔ بیٹی ماشاءاللہ بہت ذہین ہے۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے نہ صرف آنکھوں کا تارا ہے بلکہ ہم دونوں میاں بیوی کی خاص توجہ کا مرکز بھی ہے۔ نام سیدہ نبیہہ علی رکھا ہے۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود میں بھی حصہ لیتی ہے۔ باسکٹ بال میں2سلور میڈل جیتے ، و الی بال میں دو گولڈ میڈل حاصل کئے ہیں۔ وہ نہ صرف پڑھائی میں آگے ہے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہتی ہے۔ اسکول کی ذہن طالبہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ 
شگفتہ کہتی ہیں کہ میرے ابو نے کبھی حرام کمائی کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج میرے میکے میں کوئی سرپرست موجود نہیں مگر سب بھائی بہنیں مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ کسی کو بھی کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سب مل کر اس کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اتنی دور رہتی ہوں مگر مجھے پھر بھی ہر لمحہ ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ جب بھی کسی کی تکلیف سنتی ہوں تو دل پریشان ہوجاتا ہے کہ کسی طرح جاکر ان کے مسائل حل کردوں۔
محترمہ شگفتہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے ساس ، سسر کا انتقال ہوچکا ہے۔ وہ جب تک بقید حیات تھے،ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔آج میں جب بھی پاکستان جاتی ہوں، سب کے سب بہت اچھی طرح ملتے ہیں۔ خاص طور پر نندوں سے تو بہت ہی دوستی ہے۔ باقی سسرالیوں سے بھی تعلقات بہت اچھے ہیں ۔
ابھی ہماری اور شگفتہ کی گفتگو جاری تھی کہ سید نیر علی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میاں بیوی ایک دوسرے کے مسائل سمجھتے ہیں۔میری اہلیہ شگفتہ گھر کے مسائل کو سمجھتی ہیں اور میں ا ن کے مسائل کو سمجھتا ہوں۔ ہم ایک دوسرے کا بھرپورانداز میں ساتھ دیتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کیلئے اسی طرح ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی ایسی گاڑی ہے جسے اکیلے لے کر چلنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویسے بھی شگفتہ نہایت سلجھی ہوئی اور معاملہ فہم خاتون ہیں۔ میرے والدین کا بھی انہوں نے بہت خیال رکھا۔ ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔ میں بھی ہر ممکن طور پر ان کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ویسے بھی شریک سفر کا مطلب زندگی بھر کا ساتھی ہوتا ہے۔ اپنے اس ساتھ کی عزت کرنا اور خیال رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ محبت بانٹنے سے ہی رشتے پائدار ہوتے ہیں۔ زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔
اگر کسی گھر میں والدین میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تواس کا بچوں کی شخصیت پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شگفتہ نہ صرف کھانا بہت لذیذ بناتی ہیں بلکہ مہمان نواز ی میں بھی ان کا ثانی نہیں۔ شگفتہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ میاں کی باتیں سن رہی تھیں۔ 
محترمہ شگفتہ سے شعروشاعری کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں شعروشاعری سے دلچسپی تھی۔ اب بھی کبھی وقت ملتا ہے تو کوئی افسانہ وغیرہ پڑھ لیتی ہوں۔ ویسے مجھے شاعروں میں فیض احمد فیض، احمد فراز، پروین شاکر وغیرہ کی شاعری بے حد پسند ہے ۔ میں ان کے اشعار ضرور پڑھتی ہوں۔ احمد فراز کی غزل آپ بھی ملاحظہ کیجئے:
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ
آپھر سے مجھ چھوڑ کے جانے کیلئے آ
کچھ تو میرے پندار محبت کابھر م رکھ 
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ ِدنیا ہی نبھانے کیلئے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ
 ایک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رُلانے کیلئے آ
اب تک دل خود فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کیلئے آ
عدیم کی ایک غزل پیش خدمت ہے:
تعلق توڑتا ہوں تو مکمل توڑ دیتا ہوں
جسے میں چھوڑ دیتا ہوں، مکمل چھوڑ دیتا ہوں
محبت ہو کہ نفرت ہو ، بھرا رہتا ہوں شدت سے
جدھر سے آئے یہ دریا، ادھر ہی موڑ دیتا ہوں
یقیں رکھتا نہیں ہوں میں کسی کچے تعلق پر
جو دھاگہ ٹوٹنے والا ہو، اس کو توڑ دیتا ہوں
مرے دیکھے ہوئے سپنے کہیں لہریں نہ لے جائیں
گھروندے ریت کے تعمیر کر کے چھوڑ دیتا ہوں
عدیم اب تک وہی بچپن، وہی تخریب کاری ہے
قفس کو توڑ دیتا ہوں، پرندے چھوڑ دیتا ہوں
 

شیئر: