Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرنے کے بعد یادرکھے جانے کے حقدار، شاد اں ا ندوری

شاداں اندوری نے غزل گوئی میں جگر کا اثر قبول کیاکیونکہ اقلیمِ سخن میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا

 

محمد مجاہد سید ۔ جدہ

 

ظہوراحمد نور محمد شاداں اندوری 23فروری 1912ء کو پیدا ہوئے اور 10نومبر 1971ء کو دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ مدھیہ پردیش میں اندور اور تہذیبی اعتبار سے بھوپال سے آپ کا تعلق رہا۔ شاداں اندوری جگر مرادآبادی کے بھوپال کے قیام کے دوران جگر صاحب کے قائم کردہ مشہور ’’دارالکہلاء‘‘ میں خموش الکہلاء کا خطاب حاصل کرچکے تھے۔ غزل گوئی میں اگر شاداں نے جگر کا اثر قبول کیا تو حیرانی کی بات نہیں۔ اس زمانے میں جگر صاحب کا طوطی ہی نہیں بول رہا تھا بلکہ اقلیمِ سخن میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا۔ دہلی اور لکھنؤ سے بہت دور ہونے کے باوجود شاداں اندوری کی زبان پر ان دونوں ادبی مراکز کی چھاپ ہے۔ روزمرہ و محاورہ ، سلاست کے ساتھ رنگین بیانی شاداں کی غزل کا وصف ہے ۔یہی سبب ہے کہ اندور اور آس پاس کے علاقوں میں شاداں نے اپنے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑی جو ان کی شعری روایت کو اب تک آگے بڑھاتے نظر آرہے ہیں۔ پروفیسر آفاق احمد (بھوپال) نے شاداں اندوری کا شمار دبستان مصحفی کے ان غزل گو شعراء میں کیا ہے جنہوں نے اپنی عصری بصیرت اور شعر گوئی کی فطری لیاقت سے مضامین نوکو بھی شاداں کیا۔ اندور ریڈیو اسٹیشن کے سابق ڈائریکٹرعزیز انصاری، شاداں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انہیں زبان و بیان پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ وہ چاہتے تو مشکل انداز میںدقیق الفاظ سے بھی شعر گوئی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘ ڈاکٹر ایاز احمد قریشی نے کہا کہ ’’شاداں صاحب کا کلام نہ تو بغیر پروں کے آسمان کی سیر کرتا ہے نہ ہی حسرت، فراق ، اصفر، فانی ، شاد ، صفی کی جدید غزل کی روایت کی نقل ہے بلکہ اس میں ایک خاص قسم کا اعتدال دکھائی دیتا ہے۔ ان کے کلام میں سوزِ دروں اور سوزِز مانہ ہاتھ سے ہاتھ ملائے چلتے نظر آتے ہیں۔‘‘ پروفیسر خلیل احمد صدیقی کہتے ہیں کہ’’ ان کی شاعری میںکلاسیکی رنگ ہونے کے باوجود خیال کے اظہار کا نیا انداز ہے ۔ انہیں زبان پر کھنے اور برتنے کا فن خوب آتا ہے۔

پروفیسر عزیز اندوری کہتے ہیں، ’’یہ عجیب اتفاق ہے کہ حسرت، اصفر، فانی، شاد اور جگر کے رنگ تغزل کو آگے بڑھانے والے اس باشعور شاعر کی عظمت و اہمیت کا اعتراف پورے طور پر نہیں کیا گیا اور مالوہ جس کے گیسوئے سُخن کو سلجھانے اور مہکانے میں موصوف کا ہمیشہ ہاتھ رہا، اُن کی غزل کی لطافت کا تو قائل رہا لیکن اس کی عظمت کو نظر انداز کرگیا۔ مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کہتے ہیں کہ ’’شاداں صاحب کے یہاں وہ سبھی موضوعات ملیں گے جو ہمارے بزرگوں نے باندھے ہیں۔ غزل اپنے سارے لوازمات اور کلاسیکی ساز وسامان کے ساتھ جلوہ افروز ہے ۔ تخیل کو اس طرح نظم کیا ہے کہ اظہار میں اک قطعیت کے وجود کا احساس ہوتا ہے اور یہ قطعیت تجربے کی پختگی کے سبب ہے۔‘‘ ڈاکٹر حدیث انصاری لکھتے ہیں کہ ’’ زبان و بیان ،اسلوب، لب و لہجہ، استعارہ، تمثیل ، تشبیہات اور علامتی استعمال میں بھی ’’ شاداں نے اپنی غیرمعمولی ذہانت اور زبان دانی کا ثبوت پیش کیاہے۔شاداں کا اسلوب بیان اور انداز اپنا ہے جو ان کی شناخت کا ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر وسیم افتخار انصاری کہتے ہیں کہ ’’دراصل شاداں عشق کے شیدائی ہیں۔ انہوں نے فیض کی طرح کم کہا لیکن جو کچھ کہا وہ بڑے غور و خوض کا نتیجہ ہے ۔ڈاکٹر خلیق انجم کا کہناہے کہ ’’زبان، محاورہ اور رومزرہ کے استعمال کے کتنے ہی سخت قواعد بنالیجئے ، شاداں کی شاعری ان پر پوری اترے گی۔ انہوں نے زبان پر اپنی محنت سے ایسی قدرت حاصل کی کہ دلی اور لکھنؤوالے پورے کلام میں کہیں انگلی نہیں رکھ سکتے۔ یہ واقعی معجزہ ہے ۔ ‘‘ ڈاکٹر مختار شمیم کہتے ہیںکہ’’شاداں اندوری کی شاعری ان کی زندگی کی آئینہ دار ہے اور یہ کہ مذہبی قدروں نے ان کی شاعری کو دائمی قدر کا وہ آئینہ دیا ہے کہ جس سے حیات و کائنات کے رشتے روشن اور تابناک نظر آتے ہیں۔‘‘اقبال مسعود کہتے ہیں کہ شاداں اندوری کی ذہنی تربیت اور تشکیل فکر کی اس کلاسیکی نہج میں غریق خیرآبادی کا نمایاں ہاتھ ہے۔ ‘‘ شاداں اندوری کی غزلیات سے چند منتخب اشعار ہدیۂ قارئین :

کوئی صاحب نظر تلاش کرو

آج تک آئینہ مقابل ہے

٭٭٭

تو زندگی سے بڑھ کے کوئی اور چیز ہے

آخر فریب کھاہی گئے زندگی سے ہم

٭٭٭

کارواں بچتا ہوا، مڑتا ہوا چلتا رہا

رہ گئے اپنی جگہ پر راستے کے پیچ و خم

٭٭٭

جو راس آجائے تشنہ کامی

تو فکرِانجام کار کیا ہے

کہ یہ بجائے خود اک نشہ ہے

سرور کیا ہے ، خمار کیاہے

٭٭٭

یاس و حسرت ہے اور مرا دل ہے

کیا مسافر نواز منزل ہے

٭٭٭

فکرِحیات و موت سے عشق بہت بلند ہے

نقش کا اعتبار ہے، رنگ کا اعتبار کیا

٭٭٭

دل کی تباہیوں کا مجھے کیوں ملال ہو

اس کا ہی گھر تھا جس نے بیاباں بنادیا

٭٭٭

منزل نے چیخ کر وہیں آواز دی مجھے

افسردہ جس جگہ میرا عزمِ سفر ہوا

٭٭٭

خوشی کا کوئی نتیجہ نہ غم کا کچھ حاصل

یہ زندگی نہ ہوئی زندگی کا خواب ہوا

٭٭٭

تپتے ہوئے صحرا نے، مانگی تھی دعا جس کی

وہ ابر اٹھالیکن، گلشن پہ برس آیا

٭٭٭

اے سودوزیاں کے متوالے، ارباب وفا کے ساتھ نہ چل

یہ طوفاں طوفاں گزریں گے ، تو ساحل ساحل جائے گا

٭٭٭

تفکرات الجھتے رہے دماغوں سے

نظر بچاکے محبت پہنچ گئی دل تک

٭٭٭

دھڑکنے لگا ذرے ذرے میں اک دل

یہ کانوںمیں آتی ہیں کس کی صدائیں

٭٭٭

یاد آنہ اے نسیم سحر، اے شگفتگی

اب دھوپ تیز ہوگئی، مرجھارہا ہوں میں

٭٭٭

دلِ پُر شوق ہے ڈوبا ہوا شوق ِفراواں میں

کبھی کشتی میں طوفان ہے ، کبھی کشتی ہے طوفان میں

٭٭٭

دل کو نشاطِ غم سے بھی رکھتے ہیں دور ہم

منزل پہ یوں کھڑے ہیں کہ جیسے ہوں راہ میں

٭٭٭

منزل کی خوشی کم ہوتی ہے، منزل پہ پہنچ کر بھی مجھ کو

تکتا ہے کچھ ایسی حسرت سے، رہزن پہ ترس آجاتا ہے

٭٭٭

صیاد رہا کرنے سے انکار نہ کر آج

کل کوئی رہا ہونے سے انکار نہ کردے

٭٭٭

کیا جانئے راہِ محبت میں کوئی آخری منزل ہے کہ نہیں

ہر منزل اک آنے والی، منزل کا نشاں ہوجاتی ہے

مظفر حنفی کہتے ہیں’’ زبان کی شیرینی اور لطافت کے ساتھ لہجے کی ایسی شادابی اور کلاسیکی فکر میں ایسی ندرت شاداں اندوری کے ساتھ مخصوص ہے ۔ یہ بانکا انداز ، یہ شاعرانہ طنطنہ اور یہ منفرد طرز گفتگو اگر کسی شاعر کے ایک فیصد شعروں میں بھی ہوتووہ مرنے کے بعد بھی یاد کئے جانے کا پورا حق رکھتاہے۔

شیئر: