Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پھر حلیف بن گئے

صلاح الدین حیدر ،بیوروچیف
 بدلتا ہے آسمان رنگ کیسے کیسے ،پرانا مقولہ ہے لیکن اب بھی تروتازہ ماضی کے حریف ہی نہیں اےک دوسرے کے دشمن، کہاں پیپلزپارٹی کی حکومت اور بشمول وزیر اعلیٰ ، کراچی کو ایک پیسہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں تھے، کراچی میں ترقیاتی کاموں کا سارا کریڈٹ خود ہی لینے کے لئے بے چین رہتے نظر آتے تھے۔ اوّل تو پی پی پی نے بلدیاتی انتخابات کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا تھا، مگر سپریم کورٹ کے کہنے پر جب لوکل گورنمنٹ کے انتخابا ت کروانے پڑے، تو میئر وسیم اختر کو شجر ممنوعہ قرار دے کر تن ِتنہا چھوڑ دیا تھا، فنڈ روک دئیے گئے تھے،اور کراچی جیسے اہم شہر کو پستی کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، نجانے کونسی دشمنی تھی، دوسری طرف بلاول بھٹو سے لے کر ، مراد علی شاہ ، اورلوکل گورنمنٹ میںوزیر سعید غنی نے کراچی میں انتخابات میں کامیابی کی نوید سنا دی تھی لیکن مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتاہے، وہی ہوتاہے جو منظور خدا ہوتاہے۔وقت اور حالات نے پلٹاکھایا ۔25جولائی کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی کی سیاست میں ایک نئی روح پھونک دی۔ایم کیو ایم کیا تقسیم ہوئی ، عمران خان پارٹی کے وارے نیارے ہوگئے۔ 21قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 14پی ٹی آئی نے جیت لیں اور23صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت کر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی اہم پوزیشن بھی حاصل کرلی ۔عمران نے وزیر اعظم بنتے ہی اعلان کردیاکہ کراچی کو پیرس بنا دیا جائے گا، پی ٹی آئی کے گورنر عمران اسماعیل اور قومی اسمبلی کے نمائندے فیصل واڈوا نے عمران کی ہدایت پر کراچی میں نئے منصوبوں پر کام شروع کردیا۔ ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے کراچی جسے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہاتھ سے نکلتی ہوئی دکھائی دی، ایم کیو ایم نے عمران سے معاہدہ کرکے اسے قومی اسمبلی ، وزیر اعظم اور صدر مملکت کے انتخابات میں مدد دی۔ اسے دو وفاقی وزارتیں تو ملیں لیکن ساتھ میں کراچی کے لئے فنڈز بھی مہیا کرنے کا آغاز ہوگیا۔وہی سعید غنی جو کراچی میں میئر کے خلاف ہرزہ سرائی پر کمر بستہ نظر آتے تھے، وسیم اختر کے ساتھ مل کر کراچی کی ترقی کے لئے رقم دینے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا۔عجیب تماشہ تھا، راتوں رات کیسے پلٹ گئے۔ ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کو احساس ہوگیا تھا کہ مزید بدمزگی پیپلز پارٹی کا کراچی سے مکمل خاتمہ کردے گی۔بھلائی اسی میں تھی کہ پرانی رنجشیں بھلا دی جائیں۔ قدر ت کے کاموں میں کسی کا دخل نہیں، سعید غنی اور وسیم اختر نے ایک ساتھ پریس کانفرنس کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا ۔ ہم میئر کو فنڈز بھی دیں گے اور کراچی میں ترقیاتی کام بھی مل جل کر کرائیں گے۔ یہ کہنا تھا سعید غنی کا۔ انگریزی میں کہتے ہیں ” all that ends well is well “ ۔میئر کو انتظامی امور پر بھی بااختیار بنایا جائے، ظاہر ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتاتو عمران نے جو کے پی کے اور پنجاب میںنیا لوکل گورنمنٹ نظام بنوایا ہے یا بنوانے کی سعی میں مصروف ہےں۔ اس کا اثر سندھ پر پڑنا لازم تھا۔
 

عجیب تماشہ تھا ، دونوں راتوں رات کیسے پلٹ گئے ، تجزیہ

شیئر: