Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ جل جلالہ ، صانعِ حکیم لم یزل

   
قادرِ مطلق نے انسان کو حریتِ اختیار دیکر اس کے سامنے را ستے متعین کردیئے ہیں، ایک راستہ جنت کو جاتاہے ، دوسرا جہنم کو

 
محمد عباس افضل۔مکہ مکرمہ

وہ ہستی  جسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ۔جسے کوئی گمان نہ چھوسکا۔ تعریف کرنے والے اس کی تعریف سے عاجز رہے۔نہ حادثات اسے بدل سکے۔اسے زمانے کی بے ثباتی کا کوئی خوف نہیں ۔پہاڑوں کے وزن اور سمندر کی پیمائش کا علم اسکے پاس ہے۔بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں کے عدد سے باخبر ہے۔کس پر رات کی ظلمت اور دن کی روشنی ہے ،سب جانتاہے۔اس پر آسمان کی بلندی ، زمین کی پستی، سمندر کی گہرائی اور پہاڑ کی چوٹی پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ ہرچیز کو اس کی تمام تفاصیل کے ساتھ جانتاہے۔آپ آہستہ سے بولیں یا زور سے ،وہ آ پ کے اندر چھپے تمام بھیدوں سے باخبر ہے۔وہ تمہارے سانس کو نکلتے اور اترتے ہوئے دیکھتاہے۔رگوں میں چلنے والے خون کی آواز سنتاہے۔پتے کے ٹوٹنے اور زمین پر اسکے گرتے وقت آواز کو سنتاہے۔زمین کے اندر اسکے نیچے چلنے والے کیڑوں کی آواز سنتاہے۔سمندر کی تہہ میں چلنے والی مچھلی کی آواز سنتاہے۔بحر وبر میں جو کچھ ہے سب اسکے علم میں ہے۔ وہ اس کائنات کا بادشاہ ہے۔ربّ ہے۔پالنے والا ہے۔اس کی آنکھ کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ سوتاہے…آئیے ہم چشم تصور سے ایک تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    کالی رات ہے ۔ایک کالا پہاڑ ہے ۔اس میں کالا پتھر ہے۔دنیا کی ایک چھوٹی  اور کمزور ترین مخلوق چیونٹی جس کی رنگت بھی کالی۔
اس کالی رات میں ، کالے پہاڑ کے کالے پتھر پر یہ کالے رنگت کی چیونٹی چل رہی ہے ۔ چیونٹی کے چلنے سے پتھر پر جو نشان پڑتے ہیں اسے عربی میں ’’دبیب‘‘ کہتے ہیں۔ وہ نشانات ہمارے حاشیہ خیال اور تصور میں بھی نہ آتے ہوں گے۔ اس لکیر کو اس کے تمام تفاصیل کے ساتھ عرش پر بیٹھ کر دیکھنے والے ہستی کا نام ’’ اللہ جل جلالہ ‘‘ ہے۔
    آپ کبھی چیونٹی کو اٹھاکر اس کے پاؤں تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔آپکو اسکے پیر ہی نظر نہیں آئیں گے ۔چہ جائیکہ ان پاؤں کے نشانات۔ دن کی روشنی میں اگر وہ نرم مٹی پر چلے تب بھی اسکے پاؤں کے نشانات نظر آنا محال۔چہ جائیکہ رات کی ظلمتوں میں کالے پہاڑ کے سخت کالے چٹانوں پر اسکے پاؤں کے نشانات نظر آئیں جبکہ وہ عظیم وبرتر ہستی عرش پر سے اس چھوٹی مخلوق کی ظلمات کے اندر پاؤں کے نشا نا ت کو دیکھتاہے۔ہم جس جگہ آباد ہیں اُسے دنیا کہتے ہیں،یہ روز ہمارے مشاہدے سے گزرتاہے،یہاں ہمیں سب نظر آرہا ہوتا ہے ، یہا ں ہم نے اپنے مشاہدات سے فوائدو نقصانات کے پیمانے بنائے ہوئے ہیں جبکہ یہ دنیا اس بحرِ ذخار کا صرف ایک قطرہ ہے جسکی وسعتو ں نے چار وں سمت سے اسے گھیرا ہوا ہے ۔ ہماری انا سے خارج ایک وسیع وعریض ایک کائنات آباد ہے جس کا ایک خالق ہے ، ایک مدبر ہے ، اس کی عظمت وجلال کی نشانی یہ عظیم کائنات ہے ۔اس کائنات کے وجود کے تسلیم کرنے سے اسکے وجود کو تسلیم کرنا ایک عام فہم۔سلیم الفطر ت انسا ن کیلئے لازم ہوجاتاہے ۔کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اللہ کے وجود کا مسئلہ کوئی سائنسی یا فلسفی بحث ہے یہ محض ایک دینی مسئلہ ہے ،کا ئنا ت کے بارے میں غور وخوض کے بعد ایک سلیم الفطرت انسان اس قاعدہ کو ماننے پر مجبور ہوجاتاہے کہ اتنی بڑی کائنات بغیر کسی خالق ومو جود اور مدبر کے نہ بن سکتی تھی۔نہ چل سکتی ہے ۔حادثات سے اتنے منظم نظام نہیں بناکرتے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات ایک حد درجہ منظم واقعہ ہے ، یہ ہرگز کوئی بے ترتیب انبار نہیں ، یہ یقین کی اس سطح کا مسئلہ ہے جہاں تشکیک والحاد کی لہریں پہنچ ہی نہیں پاتیں ۔ جس ذہن میں سوچ اور سمجھ کی بہتر صلاحیت ہوتی ہے وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کائناتی واقعات کے پیچھے کوئی برتر ذہن کام کررہاہے ۔
    سائنس جس پر یہ الزام لاداجاتاہے کہ اس نے انسان کو خداکے متعلق تشکیک والحاد میں ڈالا، آئیے اس کے برتر ذہنوں کی نظریات کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔البرٹ آئن ا سٹائن جسے بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتاہے ،یہ جرمنی کے خوشحال یہودی النسل خاندان میں شمار ہوتاتھا۔وہ ایک خالص سائنسی مزاج رکھنے والا شخص تھامگر اسے یہ اعتراف تھا کہ جو شخص کھلے ذہن سے کائنات کو دیکھے گا تو اسے اس کے اندر اس کا خدا نظرآئیگا چنانچہ وہ کہتاہے کہ ’’کائنات خدا کی نشانی ہے ۔وہ مخلوق کی روپ میں خالق کی تصویر دکھاتی ہے ۔جو شخص کھلے ذہن کے ساتھ کائنات کو دیکھے گا و ہ اس کے اندر اس کے خدا کو پالے گاالبتہ جن کے ذہن میں ٹیڑھ پن ہو وہ عین روشنی میں بھی اندھیرے میں رہیں گے ۔خدا کے قریب کھڑے ہوکر بھی خدا کو نہ مانیں گے‘‘۔
    اللہ کے وجود کا تو عموماً ہر سلیم الفطرت ذہن قائل ہوتاہے اور بحیثیت مسلمان یہ ہمارے ایمان کا جزو لا ینفک ہے جس میں ذرا بھی تردد کفر کی گہری کھائی میں پھینک دیتاہے…مگر آئیے ہم خود سے یہ سوال کریں کہ آیا ہمارا ایمان اللہ کے وجود پر ایسا ہے جس کی وجہ سے اس کی خشیت سے ہمارے وجود میں ہلچل پیدا ہو یا ہماری روح سہم جاتی ہو ، جب ہم اس کی نافرمانی کا تصور کرتے ہوں؟
    عموماً ہم لوگ صانعِ حکیم لم یزل پر 2طرح سے ایمان لاتے ہیں :ایک اللہ پر ہمارا مروجہ عام عقیدہ۔ یعنی ہم ایک خیال کی حد تک معاشرے میں سنتے سناتے، اس کے وجود کے عقیدے کو لیکر اس پر ایمان لاتے ہیں ۔اس عقیدے سے آپ کی رگوں میں بجلی نہیں دوڑتی نہ یہ عقیدہ آپکی روح کو تڑپاتاہے۔یہ آپ کے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں کرتا۔اس میںآپ اللہ تعالیٰ کو صرف مانتے ہیں ، اس سے کما حقہ ڈر تے نہیں ۔اسے آپ بے جان عقیدے سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔اور ایک دوسرا عقیدہ ہے جو اس سے یکسر مختلف ہے ۔اس عقیدے سے جو شخص اللہ تعالیٰ کومانتاہے وہ دوسروں سے مختلف ہوتاہے ۔ اس عقیدے سے سارے وجو د میں ایک بھونچال سا آجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کے خوف اور اسکی خشیت سے روح سہم جاتی ہے ۔اس عقید ے کو خشیت اللہ لازم ہے۔یقین جانئے کہ جس مقام پر اللہ تعالیٰ کا خوف دل سے ذرا لمحے کیلئے بھی الگ ہو وہ حقیقی عقیدہ نہیںہوسکتا۔
    جب کسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا حقیقی ادراک ہو تو وہ حسی طور پر نہ سہی مگر تصوراتی طورپر جیسے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوتاہے۔مسند احمد میںحضرت عبد اللہ بن عمر ؓکی روایت میں اس واقعے کا بیان ہے جب رسول اللہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بیان فرمارہے تھے اُس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ کا جسم ہل رہا تھا اور دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ زمین پر گر پڑیں گے۔اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور خشیت کہتے ہیں ۔ یہ معرفت انسان کے اندر ایک بھونچال کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔یہ کیفیت اللہ کو دیکھے بغیر دیکھ لیناہے۔
    انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں : ایک فطری اور طبیعی جن سے انحراف کا نتیجہ فوراً نظر آتاہے اور آنکھ اس کا نظارہ کررہی ہوتی ہے۔آگ میں جلانے کی صلاحیت ہے تو انسان کبھی خود کو اس آگ میں ڈالنے کی غلطی نہیں کرتا۔اسے نظر آرہا ہوتاہے کہ اس کا نتیجہ ہلاکت ہے ۔انسان فطرتی امور میں باقی مخلوقات کی طرح اللہ تعالیٰ کا مکمل مطیع ہے اور کبھی ان سے جھگڑنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اسے ظاہری آنکھ سے اس کے تمام نتائج نظر آرہے ہوتے ہیںجبکہ دوسرا پہلو اخلاقی ہوتاہے جس میں اس کی جرأت اور بہادری دیدنی ہوتی ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرتاہے۔اس کے احکامات کو چھوڑ کر اپنی راہ پر چلتاہے اور اپنی محدود آزادی اور محدود طاقت کے بل بوتے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف کھڑا ہوجاتاہے اور جس وقت وہ بغاوت اور طغیانی پر ہوتاہے اُسے یہ علم رہتاہے اور مشاہدہ عام ہے کہ کسی بھی وقت اس کی یہ محدود مدت اور طاقت سلب ہوسکتی ہے۔اس کیلئے طویل عرصہ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک لمحہ ہوتاہے جہاں صرف پردہ ہٹنے کی دیر ہوتی ہے۔ پردہ کے پیچھے سب کچھ نظر آرہا ہوتاہے اس لئے اس کی مہلت سے فائدہ اٹھائیے ۔پردہ اٹھنے کا انتظا ر نہ کیجئے ۔ اس بھیانک نتائج کے آپ متحمل نہیں ہوسکتے ۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھئے۔آپ سے بڑے بڑے طاقتور اس پردہ ہٹنے کے بعد بچوں کی طرح بلبلا کر روتے رہے مگر اس وقت خون کے آنسو بھی کام نہیں آتے ۔ آج جھوٹا موٹا رولیجئے ۔ وہ خوشی خوشی قبول کرلے گا۔
    انسان سے آزادنہ خدا پرستی مطلوب ہے نہ کہ مجبوراً۔ یہی وصف اسے فرشتوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی اطاعت میں جھکتاہے اور اسے جھکنا چاہئے اور اس کیلئے ایک وقت مقرر ہے ۔ وہ اس کے راحت کے لمحات ہیںاور عبادت اس کی وہی قبول ہے جو اس نے اپنی راحت کے وقت میں کئے لیکن اگر خدا نخواستہ راحت کے اوقات میں اسے بھلائے رکھا اور جب مصیبت سامنے نظر آگئی یا پردہ اٹھ گیا تو پھر کوئی توبہ کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔اُس وقت کی دوڑ کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ، نہ کسی گڑگڑاہٹ کا۔ اس وقت یہی کہہ کر مردود کیا جائے گا کہ ’’الآن‘‘ اب تمہیں یاد آیا؟
    اسلئے اللہ کی طرف سے عطاکردہ آزادی سے فائدہ اٹھائیے۔قادرِ مطلق نے انسان کو حریتِ اختیار دیکر اس کے سامنے را ستے اور انکے منازل واضح طورپر متعین کردیئے ہیں۔یہ راستہ جنت کو جاتاہے اور یہ جہنم کو ۔آپکو مکمل آزادی ہے ،جو چاہے اختیار کرو۔جو چاہے بولو …پھر انسان کا یہ حال ہے کہ اگر ذرا سا مال ہاتھ لگا تو اسے اپنا مستقبل محفوظ نظر آتاہے۔ اقتدار ملا تو اسے ایسے استعمال کرنے لگتاہے جیسے یہ ابد تک اسی کے پاس رہنے والی چیز ہے اور گویا اس کی تخلیق ہی اسی غرض کیلئے ہوئی ہے مگر وہ لمحہ بہت جلد آجاتاہے جب اسکی غلط فہمیوں کی عمارت اسکے سرپر دھڑام کرکے گرجاتی ہے ۔اسوقت اسے پتہ چلتاہے کہ یہ سب تو میرے تصورات اور خیالات کے برعکس نکلا۔پھر اسے یہ احساس ہونے لگتاہے کہ حقیقت میں یہ سب کچھ دھوکہ اور فریب ہے ۔ وہ خود کو صاحب ثروت، طاقت اور عزت سمجھتا رہا اسے یقین آجا تا ہے کہ وہ ان تمام اوصاف سے تہی دامن ہے ۔جس طاقت پر اسے ناز تھا وہ تو اللہ کی اس دنیا میں مکھی اور مچھر سے بھی کم طاقت کا مالک تھا۔
    یہ ساری کائنات اس کے بتائے ہوئے نقشے کی انتہائی پابندی سے حرکت کرتی ہے۔انسان کے علاوہ ہر مخلوق ازل سے اپنے لئے وضع کردہ احکامات پر زندگی گزارتاہے۔صرف انسان کو یہ اختیار ایک محدود مدت کیلئے حاصل ہے کہ وہ جو راستے چاہے منتخب کرے۔چاہے تو رازق کی بتائے ہوئے طریقے پر رزق حاصل کرے جو اس کیلئے مقرر کی گئی ہے اور چاہے تو اس مقسومہ رزق کو حرام طریقے سے کمائے۔  چاہے اللہ تعالیٰ کی کائنات کا یہ بہت ہی چھوٹا حصہ اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارے اور چاہے اس سے بغاوت کرے اور اس کی زمین کا نظام خراب کرنے کی کوشش کرے مگر اسے یاد رہے کہ یہ تمام اختیارات محدود مدت کیلئے ہیں ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مرضی اس پر اسی طرح پوری ہوگی جس طرح وہ بقیہ مخلوقات پر پوری ہورہی ہے ، جہاں کوئی پتہ اس کی اجازت اور علم کے بغیر نہیں گرسکتا۔
    مؤمن اور غیر مؤمن کا فرق یہ ہے کہ غیر مؤمن کی نظر مخلوقات میں اٹک کر رہ جاتی ہے اور مؤمن مخلوقات سے گزرکر خالق تک پہنچتاہے۔غیر مؤمن مخلوقات کے حسن کو انہی کا سمجھ کر اسی میں محو رہتاہے جبکہ مؤمن مخلوقات کے حسن میں خالق کا حسن دیکھتاہے۔غیر مؤمن کا سجدہ چیزوں کیلئے اور مؤمن کا سجدہ چیزوں کے خالق کیلئے ہوتاہے۔
    اگر ایمان یہ ہو کہ اللہ تمام طاقتوں سے بڑا طاقتور ہے ۔تمام فیصلوں کا سرا اسکے ہاتھ میں ہے ۔ اس ایمان کے ساتھ جو اللہ کو مانتاہے تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرا رہتاہے۔اس کی زندگی اندیشوں میں گزرتی ہے ۔ہمیشہ خود کو بچانے کے جذبے سے مصروف عمل رہتاہے ۔ لوگوں سے معاملہ میں ظلم سے ڈرتاہے ۔ایسا شخص ہمیشہ خود احتسابی کے مراحل میں خود کو رکھتاہے۔پھر وہ چاہے جتنا عظیم ہو ، چاہے اسے جنت کی یقینی بشارت بھی مل چکی ہو مگر وہ خود احتسابی اور خشیت اللہ کے اس مقام پر ہوتاہے کہ اس کا باطن اللہ کی خشیت سے دہل جاتاہے۔ہمیشہ خود کو اندیشوں میں پاتاہے۔راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ دیتاہے اور لوگوں کی ضروریات کا خیال کرتاہے۔22لاکھ مربع میل پر حکمران حضرت عمرؓ  کو فرات کے کنارے جانوروں کی موت کا خیال بھی ستاتاتھا ۔ فرماتے کہ : اگر ایک کتا بھی مجھ سے بہت دور فرات کے کنارے مرگیا اور ا س کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟‘‘
    یہ ایمان کی حلاوت اور اس کا اثر ہوتاہے جو حاضر میں آپ کو غائب دکھاتاہے ۔ جو کچھ سامنے ہے اس میں چھپی ہوئی کو دیکھنا ایمان ہے ۔جسے یہ کیفیت حاصل ہو وہ اپنی چاروں طرف اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو محسو س کرتاہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا سب کچھ بنالیتاہے۔ وہ اس بڑائی میں اس طرح گم ہوجاتاہے کہ پھر اسے اپنی بڑائی نظر نہیں آتی، نہ کسی اور کی ۔اللہ کے احکام ماننے کے جذبے کیساتھ زندہ رہیں ۔ہماری نماز ، قربانی، جینا،مرنا ،جان ومال اور زندگی ،سب کچھ اس کیلئے ہو ۔اُس ہستی کیلئے ہو جو ہمیشہ ہم پر رحیم وکریم ہے ۔ہمارے گناہوں کے بدلے میں اس کا رحم بڑھتاہے۔ہماری سرکشی کے مقابلے میں اس کی چشم پوشی بڑھتی ہے ۔ہم بے حیا بن جاتے ہیں اور وہ ہمارا پردہ کئے رہتاہے۔
    رزاق اپنی ساری مخلوقات کو رزق دیتاہے، اس میں وہ تھکتا نہیں۔ ہر انسان کو کھلاتاہے چاہے وہ اس کا دوست ہو یا دشمن۔بل میں سوئے ہوئے سانپ کو کھلاتاہے۔ جھپٹتے ہوئے عقاب کو نہیں بھولتا۔شیر کو کھلایا ،چیتے کو نہیںبھولا۔پروانوں کو کھلاتاہے ،مچھر کو کھلاتاہے ۔پتنگے کو کھلاتاہے، سمندر کی مچھلیوں کو کھلاتاہے۔کائنات کے ہر ذرے کو وہ پالتاہے اس لئے انسان کو ہمیشہ یہ چیز اپنے مطمح نظر رکھنی چاہئے کہ کائنات میں اس کی خلقت کی وجہ کیا ہے؟ اور اسے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہئے ؟
    یاد رکھیں کہ اللہ کی اس عظیم کائنات جس کا ہم ایک بہت ہی چھوٹا قطرہ ہیں ، اس نے ہمیں ایک ہی مقصد کیلئے پیدا فرمایا ہے اور وہ ہے عبادت ۔عبادت اور صرف عبادت۔ اس کے علاوہ کوئی مقصدِ حیات نہیں، بے شک وسائل وذرائع ہوں۔
    اللہ کے خزانوں میں کسی کمی کو پورا کرنے کیلئے انسان کو پیدا نہیں کیا گیااور نہ اس ہستی نے اپنی وحشت کم کرنے کیلئے اپنی دل لگی کیلئے اسے پیدا کیا ہے۔نہ اُس ذو الجلال کا کوئی کام اٹک گیا تھا جس کی وجہ سے انسان کی خلقت ضروری تھی ۔ انسانی خلقت کا واحد مقصد صرف عبادت ہے۔انسان سے اِس خدائے سبو ح وقدوس کی صرف عبادت مطلوب ہے اسلئے صبح وشام اسے یاد کرو۔ یہی انسانیت کی معراج اور امتیاز ہے اور جو اللہ کا ہوجاتاہے تو ساری دنیا اس کی غلام ہوجاتی ہے،اللہ اسکا دوست بن جاتاہے۔پھر اس انسان کے دشمن اللہ کے دشمن بن جاتے ہیں۔اسکے دوست اللہ کے دوست ہوجاتے ہیں۔جس نے اللہ کے دوست کو تکلیف پہنچائی، وہ قادرِ مطلق اس سے اعلان جنگ کرلیتاہے۔اللہ کا ہوکر تو دیکھئے ۔اللہ کی ذات کو مقصد بناکر زندگی گزارکر تو دیکھئے۔اللہ کیلئے مرنا ، اس پر مر مٹنا سیکھیں۔اس کیلئے جینا سیکھیں۔ خوشی بھی وہی ہو جو اسے پسند ہو ۔غم میں بھی اس کا لحاظ۔اظہار بھی وہ جو اسے پسند ہے اور اخفا بھی وہ جو اسے پسند ہو ۔ ہردم اور ہر لمحہ اس کی رضا مطلوب ومقصود ہو۔

مزید پڑھیں:- - - - اللہ تعالٰی پر ایمان ، تمام ارکان کی بنیاد

شیئر: