Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علم کی حقیقت سمجھیں

***خلیل احمد نینی تال والا***
روایت ہے کہحضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ! تو مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو اس سے پہلے کسی کو نہ ملی ہو۔ اللہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے پاس 3 چیزیں بھیجیں۔ پہلی چیز دولت ،دوسری شہرت،تیسری علم۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے علم کو پسند کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے دولت اور شہرت کو کہا:چلو واپس چلیںتو دولت اور شہرت نے کہا کہ جب اللہ نے ہم کو پیدا کیا تو ہمیشہ کیلئے علم کے تابع کر دیا تھایعنی جہاں علم جائے گادولت اور شہرت اس کے پیچھے پیچھے جائے گی اور آج اگر ہم آنکھیں کھول کر اس دنیا میںبسنے والوں کا مشاہدہ کریں تو جس جس ملک نے علم حاصل کیاآج وہ ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ اور بدقسمتی تو دیکھئے جہا ں جہاں مسلمان ممالک کا ذکر آتاہے وہ مجموعی طور پر ہر طرح کی دولت رکھنے کے باوجود علم سے بہت دور ہیں۔50،60 مسلمان ملکوں کی ایک بھی یو نیورسٹی بین الاقوامی معیار پر نہیں اترتی۔ لگ بھگ 800سال دنیا پر حکومت کر نے کے باوجود وہ آج ایک بھی نئی ایجاد کر نے سے قاصر ہیںجبکہ قرآن کا پہلا جملہ بھی"اقراء "سے شروع ہوتا ہے۔جب تک مسلمان اس پر عمل کرتے رہے، ایجادات اس کی باندی رہیں اور جب انہوں نے دولت کو منہ لگایا  توعلم ان سے دور ہوتا گیا۔ 
آ ج ہمارے نئے وزیر آعظم عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں،اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم علم کا عَلم اٹھا کر چلیں گے،تب ہی خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔اس کیلئے پوری قوم کو محنت کرنا ہو گی۔20 کروڑ عوام کو سب سے پہلے علم کی دولت سے مالا مال کرنا ہو گا،ورنہ ہم دنیا بھر کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے اور قومیں ہمیں بھکاری سمجھ کر اپنی من مانی شرائط پر بھیک دیتی رہیں گی۔ آج ہم دوبارہ کشکول لے کر اپنے دوستوں کے پاس نکلے ہوئے ہیں،طرح طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ۔فلاں ہمارا دوست اتنے ارب کا تیل قرض دے رہا ہے اور اتنے ساتھ بھی دے کر ہم سے کوئی کام کر وانا چاہتا ہے،جس کو ہم ماضی میں انکار کر چکے ہیں۔یاد رکھیں دنیا میں کوئی بغیر غرض آپ کو ایک روپیہ بھی نہیں دے گا،کجا آپ اربو ں کی بات کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے علم کا بازار کھولیں۔آج شروع کریںگے تو صرف 10 سال بعد اس کا پھل آپ کو ملے گا اور ضرور ملے گا ۔جب چین میں انقلاب آیا تو سب سے پہلے یہ نعرہ تھا کہ ہر شخص ایک کو پڑھائے گا(Every One Teach One) اور دیکھتے ہی دیکھتے  افیون کھانے والی یہ قوم ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم پڑھے لکھے 800سال تک ورلڈ پاور ہوتے ہوئے آج مفلس اور قلاش ہو چکے ہیں۔پاکستان میں کیا کچھ نہیں ، اُس کو تو ہم پیچھے چھوڑ کر دوسروں کے در پر جاکر وہ مانگ رہے ہیں جو خود ہمارے پاس موجود ہیں ۔بلوچستان اور کے پی کے میں پڑول ،گیس ،سونا،معدنیات تو پنجاب میں ہرا بھرا زرخیز علاقہ تو سندھ کے تھر جیسے بنجر میں قدرت نے کوئلے اور پٹروول کے ذخیرے چھپا رکھے ہیں ۔دودوسمندر قدرت نے ہمیں دے رکھے ہیں ۔ہم خود بجلی پیدا کرسکتے ہیں ،پانی کو میٹھاکرکے استعمال کرسکتے ہیں ۔آج دوستوں کے در پر سے اگر کچھ لے بھی آئے تو وہ واپس کرنا ہوگا ۔اس کو واپس کرکے دوبارہ پھر لینے کے لئے نکلیں گے کیا ؟قوم کو ایک خوشخبری سنا کر دوسرے ہاتھ سے ہم بجلی اور گیس کے دام بڑھادیتے ہیںتو دوسری خوشخبری کے ساتھ ہی ڈالر 20روپے مہنگا ہوجاتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے در پر حاضری دینے جارہے ہیں ۔6ارب کی امدادکے ساتھ پٹرول جو گھٹ کر 76ڈالرز فی بیرل ہورہا ہے تو ہم اُس میں بھی قوم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے کئی روپوں کا اضافہ کردیتے ہیں ۔تبدیلی اپنی سوچ میں لائیں۔اب نعروں اور وعدوں سے کام نہیں چلے گا ۔قوم کب تک قربانی کا بکرا بنی رہے گی ۔ہر دور میں آنے والا یہی نعرہ لگاکر قوم کو تسلیاں دے کر خاموش کرادیتا ہے ۔آخر کب تک ایسے گلشن کا کاروبار چلے گا ۔اب تو تبدیلی کو فخر سے بیان کرنے والے بھی اس لفظ سے شرمانے لگے ہیں ۔آہستہ آہستہ تبدیلی کا نعرہ بھی ہوا میں تحلیل ہوتا نظر آرہاہے ۔
حزب اختلاف والے متحد ہونے جارہے ہیں ۔ آپ کے مشیروں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے صرف3 ماہ میں بے زاری شروع ہوچکی ہے ۔اس پر بھی توجہ دیں۔ اب میڈیا اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ منٹوں میں آپ کے وعدوں کی کیسٹ سناسناکر آپ کو عوام سے دور کررہا ہے ۔کس کس کا منہ بند کرینگے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کے نعرے اب کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں ۔کب وہ وقت آئے گا ؟جب آپ اِن پر ہاتھ ڈالیں گے ۔

شیئر: