Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بابری مسجدکیس تاریخ کے آئینے میں!

نئی دہلی۔۔۔۔بابری مسجد کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ میں شروع ہوئی تاہم تھوڑی دیر بعد سماعت آئندہ جنوری2019تک ملتوی کردی گئی۔
آئیے جانتے ہیں بابری مسجد کی تعمیر سے لے کر آج تک کے اہم واقعات:
1528۔ ایودھیا میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
1949۔ خفیہ طور سے بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئی۔
1959۔ نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازعہ مقام سے متعلق ٹرانسفر کی عرضی داخل کی گئی۔ بعد ازیں 1961 میں یوپی سنی سنٹرل بورڈ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی درخواست داخل کی۔
1986۔ متنازعہ مقام کو ہندو عقیدت مندگان کے لئے کھول دیا گیا۔ اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہوئی۔
1990۔ لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا۔
1991۔ رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اترپردیش میں اقتدار میں آ گئی۔ اسی سال مندر تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔
6 دسمبر 1992۔ ایودھیا پہنچ کر ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ پولیس نے لاٹھی چار ج کیا اور فائرنگ میں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ جلد بازی میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا۔
16 دسمبر 1992۔  بابری مسجد انہدام کے ذمہ دار وں کی جانچ کے لئے ایم ایس لبراہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
1994۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
4 مئی 2001۔ خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
یکم جنوری 2002۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک ایودھیا کمیشن کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد تنازعہ کو حل کرنا اور ہندو اورمسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
یکم اپریل 2002۔  ایودھیا کے متنازعہ مقام پر مالکانہ حق کے تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی 3 ججو ں کی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا۔
5 مارچ 2003۔  الٰہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
22 اگست 2003۔ محکمہ آثار قدیمہ نے ایودھیا میں کھدائی کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسجد کے نیچے 10 ویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشارہ ملتا ہے۔ اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ نے چیلنج کیا۔
ستمبر 2003۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد انہدام کے لئے اکسانے والے 7 ہندو رہنماؤ ں کو پیشی پر بلایا جائے۔
جولائی 2009۔ لبراہن کمیشن نے کمیشن تشکیل کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
26 جولائی 2010۔ معاملہ کی سماعت کر رہے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنےکا مشورہ دیا لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
28 ستمبر 2010۔ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے متنازعہ معاملہ میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی خارج کردی جس کے بعد فیصلہ کی راہ ہموار ہوئی۔
30 ستمبر 2010۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا، جس کے تحت متنازعہ زمین کو 3 حصو ں میں تقسیم کر تے ہوئے ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیا۔
9 مئی 2011۔ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
21 مارچ 2017۔ سپریم کورٹ نے معاملہ کو باہمی رضامندی سے حل کرنےکا مشورہ دیا۔
19 اپریل 2017۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آ ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کا حکم سنایا۔
16 نومبر 2017۔ ہندو گرو شر ی شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
5 دسمبر2017۔ سپریم کورٹ میں 8 فروری 2018 سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ۔
8 فروری 2018۔ سپریم کورٹ نے فریقین کو حکم دیا کہ وہ تمام دستاویزات کو مع ترجمہ کورٹ میں جمع کرائیں۔
14 مارچ 2018۔ بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کی عرضی سمیت دیگردرخواستیں خارج۔
23 مارچ 2018۔ مسلم فریق جمعیت علمائے ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیود ھون نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ورما کا یہ کہنا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے، غلط ہے کیونکہ نماز ادا کرنے کی جگہ مسجد ہے اور اسلام میں اس کی شرعی حیثیت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
6 جولائی 2018۔ جمعیت علمائے ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے معاملہ کو کثیر رکنی بنچ کے سامنے سماعت کے لئے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
20 جولائی 2018۔ بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کی سپریم کورٹ میں 5 دسمبر 2017 سے چلنے والی سماعت کا اختتام ہوا۔
27 ستمبر 2018۔ چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی والی بنچ نے معاملہ کو کثیر رکنی بنچ کے پاس بھیجنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’’اسماعیل فاروقی فیصلہ‘‘ کا مقدمہ پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ نماز مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں اس بات سے مقدمہ کا کوئی واسطہ نہیں۔
مزید پڑھیں:- - -  --اجودھیا معاملہ:68سال سماعت کے بعد صرف 2فیصلے؟
ہندوستان کی تازہ ترین خبروں کے لئے ’’اردونیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں
رائے دیں، تبصرہ کریں

شیئر: