Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ جنگ

***تنویر انجم***
ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری کشمکش میں جہاں ایک جانب شدت آتی جا رہی ہے، وہیں حکومتی عہدیداروں کے متنازع بیانات اور ان پر حزب اختلاف کا ردعمل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ تازہ گرم موضوع (ہاٹ ایشو) اس وقت سامنے آیا جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں سابق وزیرا عظم کی ایک بار پھر ممکنہ گرفتاری سے متعلق تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف 100فیصد گرفتار کیے جائیں گے، تاہم ساتھ ہی انہوں نے وضاحت بھی دے دی کہ حکومت انتقامی کارروائیاں نہیں کررہی بلکہ یہ سب خودمختار ادارے نیب میں جاری ان کے خلاف مقدمات کی بنیاد پر ہو رہا ہے اور اسی باعث انہیں یقین ہے کہ نواز شریف دوبارہ جیل کی ہوا کھائیں گے۔
مسلم لیگ ن کی طرح ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کیخلاف بھی نیب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے گھیرا خاصا تنگ ہو چکا ہے۔تفصیلات کے مطابق سابق صدر سے قریبی تعلق رکھنے والی شخصیات کی گرفتاری اور ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی وجہ سے کافی عرصے سے خاموش آصف زرداری بھی سخت ردعمل دینے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جھگڑا مجھ سے ہے اور پکڑا میرے دوستوں کو جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سارا مسئلہ دراصل اٹھارہویں ترمیم کا ہے جسے ختم کرنے کے لیے سارا ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔
اُدھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی میدان میں خاصے فعال نظر آ رہے ہیں ۔انہوں نے اچانک سیاسی ملاقاتیں شروع کردی ہیں جس میں سب سے اہم پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سے ملاقات تھی۔ بعد ازاں انہوں نے اتوار کے روز سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے بھی جاتی امرا میں ملاقات کی۔ مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام قرار دیتے ہوئے اسکے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اس پورے معاملے کے پس منظر میں وزیرا عظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں بھی کررہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے ہفتے کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ حکومت نیب کو اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال کررہی ہے جبکہ جو ان کے حامی ہیں وہ سب اس ناجائز حکومت کا حصہ ہیں۔
حکومت کے خلاف آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق نواز شریف سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان انہیں سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات پر قائل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں جبکہ جے یو آئی کے سینیٹر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس 6 نومبر کو ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے قوی امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اے پی سی کے لیے نواز شریف اور آصف زرداری میں حکومت کی موجودہ مبینہ انتقامی کارروائیاں،نیب کا طرز عمل اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری سمیت دیگر معاملات پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔
سیاسی محاذ پر اپوزیشن کی ’جنگی مشقیں‘ اپنے عروج پر ہیں جبکہ حکومت بھی اپنے موقف سے ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ حکومتی وزرا ء دھڑلے کے ساتھ بڑے دعوے اور اعلانات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ ’پیش گوئی‘ اور کچھ ’متنازع‘ ہونے کے زمرے میں شمار کیے جا رہے ہیں۔ حکومتی بساط پر سب سے زیادہ متحرک اور سیاسی نشتر چلانے کے ماہر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جہاں نواز شریف کے دوبارہ جیل جانے کی پیش گوئی کی وہیں انہوں نے کہا کہ 50 سے زیادہ لوگ ’اندر‘ جائیں گے جس کے بعد جو بدعنوانی میں ملوث ہیں وہ نہ صرف محتاط ہو رہے ہیں بلکہ چور مچائے شور کے مصداق حکومتی بیانات کے خلاف تنقید کے تیر چلا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں سیاست کے میدان جنگ میں جاری لڑائی کے دوران سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح بڑے بھائی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے عین ضرورت کے وقت پاکستان کا ساتھ دیکر اپنی اخلاقی ذمے داری نہایت خوش اسلوبی سے نبھائی ہے۔ ایک جانب جہاں ریاض حکومت پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے اور یمن جنگ، ایرانی تنازع، ترکی میں صحافی کے قتل سمیت دیگر کئی معاملات پر سعودی عرب کی کردار کشی کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جا رہا، وہیں سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان اپنے دو ٹوک موقف پر قائم اور عالمی منفی رویے کو برداشت کرتے ہوئے اپنے عزم کا نہ صرف اعادہ کررہے ہیں بلکہ خادمین حرمین شریفین کے طور  پرذمے داری ادا کرتے ہوئے اسلامی ممالک سے تعاون جاری رکھنے اور مشکل وقت میں ان کا ساتھ دینے میں کوشاں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان دوسری مرتبہ سعودی دورے پر گئے تو توقع کے مطابق سعودی حکومت نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے ہرممکن حد تک نکالنے اور خراب معاشی صورتحال کے دوران سہارا دینے کے لیے بہترین پیکیج کا اعلان کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ہمیشہ کی طرح بے مثال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی خوش خبری سنائی جس سے حکومت پر موجود اقتصادی دباؤ میں کسی حد تک کمی محسوس کی جا رہی ہے بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد چین، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات جیسے قریبی اور بے لوث دوستوں سے بھی ایسے ہی پیکیجز ملنے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس یا تو جانا ہی نہیں پڑے گا یا توقع کے برعکس بہت کم قرض لینا ہوگا، جس کے مثبت اثرات ملکی معیشت اور غربت و مہنگائی کی چکی میں پسے عوام پر ضرور دکھائی دیں گے۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق سعودی پیکیج پاکستان کے معاشی جہاز کے لیے ایک لنگر کی حیثیت رکھتا ہے جس کے سہارے سے ملکی معیشت نہ صرف متوازن رہے گی بلکہ عین ممکن ہے تیل کی قیمتوں میں کسی حد تک ٹھہراؤ لایا جا سکے اور ساتھ ہی مہنگائی کا اچانک آنے والا طوفان تھم جانے کی بھی قوی امید کی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر سعودی پیکیج کے اعلان کے فوراً بعد ڈالر کی اونچی اڑان اچانک نیچے آ گری اور ساتھ ہی اسٹاک ایکسچینج میں بھی گراف بلند ہوا جو کہ مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کے لیے نیک شگون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف کے شکنجے ملک پر قبضے کو تیار تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ملک بس اب دیوالیہ ہوا چاہتا ہے، ایسے میں چاروں جانب سے مسائل میں گھرے سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دے کر نہ صرف ایک بار پھر احسان کیا ہے بلکہ ایسے وقت جب کوئی بھی پاکستان کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا، مدد کرکے ریاض حکومت نے خود کو مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان کا خیر خواہ ثابت کیا ہے جس سے بڑے بڑوں کی غلط فہمی دور ہو چکی ہوگی۔
 

شیئر: