Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’معصوم پردیسی‘‘

***شہزاد اعظم***
ہم ، الحمد للہ، مسلمان اور پاکستانی انسان ہیں ۔ جب تک وطن میں تھے تو ہماری لغت فہم و فراست کچھ اور تھی، پھرپردیس چلے آئے تو لغت میں تبدیلیاں آئیں۔ ان میں سے بعض تبدیلیاں تو معمولی تھیں مگر بعض بہت ہی گمبھیر تھیں۔ وہ تبدیلیاں کون کون سی ہیں، ان کے صرف عنوانات بیان کرنے کے لئے ہی متعدد دفتر درکار ہوں گے چنانچہ سوشل میڈیا کے موجودہ ’’دورِ سریع‘‘میں اگر آپ کے سامنے اپنی  لغت کی صرف ایک تبدیلی پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں توہمارے لئے یہی بہت ہوگا۔ آئیے آج ہم’’ لغت شہزادیہ ‘‘سے صرف ایک لفظ ’’پردیس‘‘ چنتے ہیں اور اس کے معانی کے گمبھیر پن کو محسوس کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں تھے تو وہاں ’’دیس‘‘ سے مراد ایسی زمین ہوتی تھی جس پر ہم دندناسکتے ہوں، کسی سے روٹھ سکتے ہوں، منا سکتے ہوں، جہاں دل چاہے منہ اٹھا کرجا سکتے ہوں، جہاں اپنی مرضی سے قدم اٹھا سکتے ہوں،جہاںگنگنا سکتے ہوں، گاسکتے ہوں،جہاں ایک یا زائد شادیاں ’’رچا‘‘ سکتے ہوں، جہاں موٹر سائیکل پر بٹھا کر’’ بیگم نما شخصیت ‘‘ کو گھما سکتے ہوں،جہاں آپ اپنی ’’شو شا‘‘ دوسروں کو دکھا سکتے ہوں۔ پھر یوں ہوا کہ ہم پردیس چلے آئے جہاں’’ لغت شہزادیہ‘‘میں مرقوم ’’دیس‘‘ کے معانی بدل گئے ۔ ہمیں ادراک ہوا کہ دیس تو وہ ہے جہاں کانوں میں ’’پاپا‘‘ کی صداآتی ہو،جہاں بیٹی کی شکل میںچہچہاتی معصومیت کو دیکھ کر آنکھوںمیں ٹھنڈ پڑ جاتی ہو، جہاں بیٹوں کی شکل میں اپنے ناقابل فراموش ماضی کی جھلک اورحسین مستقبل کی چمک نگاہوں میں کوند جاتی ہو، جہاں زیب تن کی ہوئی پوشاک سے گرہستی کی بوئے وفا آتی ہو،جہاںہر نوالے کی لذت دل کو بھاتی ہو، جہاں زبان سے اداہونے والی خواہش ’’حکم‘‘ قرار پاتی ہو، جہاں آئینے میں نظر آنے والی شبیہ، سر سے آنچل ڈھلک جانے سے شرما جاتی ہو،اسے ’’دیس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ان توجیہات کی سماعت و تفہیم کے بعد دل نے استفسار کیا کہ اگر یہ سب دیس ہے تو پردیس کسے کہتے ہیں۔ یہ سن کر ’’خردِسال خوردہ‘‘نے ایسا جواب دیا جسے سمجھنے میں ہمیں 20برس کا عرصہ لگا۔ جواب کیا تھا، آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
پردیس وہ ہے جہاں کی زمین پر قدم رکھنے سے قبل اجازت کا حصول ناگزیر ہوتا ہے ، جہاںبلا اجازت پائوں دھرنے والا بے توقیر ہوتا ہے ۔ جہاں گھر نہیں ہوتا، صرف مکان ہوتا ہے اور اس مکان میں کوئی انسان نہیں ہوتا ، فقط سامان ہوتا ہے، جب مکیں اس مسکن میں داخل ہوتا ہے تو تنہائی اس کا استقبال کرتی ہے، وہ اپنے خیالوں کی محفل سجاتا ہے ، تنہائی اسے پامال کر تی ہے ، وہ اپنے جذبوں کو سمیٹتا ہے ، تنہائی اسے بے حال کرتی ہے۔
پردیس اور دیس میں کیا فرق ہے ، اس کا ادراک کرنے کے لئے ایک روزپردیس کے کسی بھی شہر کے ایئر پورٹ چلے جائیے ۔کچھ دیر ’’بین الاقوامی آمد‘‘والے لائونج میں جا کر دیکھیں۔ سیکڑوں افراد ہوں گے، مگر شور نہ شرابا۔ ایسا لگے گا جیسے سب کے سب بے زبان ہیں۔یہاں تک کہ جب کوئی باوردی اہلکار اس لائونج میں داخل ہوتا ہے تو لگتا ہے کہ اس کے بوٹوں کی چاپ نے خاموشی کے سمندر میں تلاطم پیدا کر دیا ہے۔ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ کہیں کوئی صنف نازک خوش و خرم دکھائی دیتی ہے ، وہ کچھ کہے تو لگتا ہے کہ وہ بول نہیں رہی بلکہ چہچہا رہی ہے ۔اس کے انداز و اطوار یہ بتاتے ہیں جیسے وہ خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت شخصیت سمجھ رہی ہے ،اس شخصیت کو یہ تمام اطوار زیب دیتے ہیں۔ وہ واقعی میں ایک خوش قسمت شخصیت قرار پاتی ہے ۔ وہ پردیس کے بین الاقوامی آمد کے لائونج میں ’’قادمون‘‘ کی قطار میں کھڑی اپنی باری کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہوتی ہے کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اسکا رفیق حیات اس لائونج سے باہر اس کی آمد کا منتظر ہے ۔اک یہی احساس کہ وہ اپنے شریک زندگی کی تنہائی دور کرنے آپہنچی ہے۔ اب اس کے ہمسفر کا مسکن ’’مکان‘‘ نہیں رہے گا بلکہ ’’گھر‘‘ ہوجائے گا۔ وہ اپنے ہمدم کے لئے وضع وضع کے ذائقے دار پکوان تیار کرے گی، اپنے ہاتھوں سے شوہر کے کپڑے دھوئے گی، اسے دفتر جانے کے لئے تیار کرے گی اور پھر اس کی واپسی کا انتظار کرے گی۔ان خیالات میں گم ہونے کے باعث ہی یہ شخصیت دیگر سیکڑوں افراد کے برخلاف ہنستی کھیلتی دکھائی دیتی ہے ۔باقی تمام کے تمام ’’قادمون‘‘بے رونق چہروں، بجھی بجھی آنکھوںاور بوجھل قدموں کے ساتھ قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اب ذرا ڈپارچر لائونج یعنی بین الاقوامی روانگی والے ہال میں تشریف لے جائیے۔ وہاں کا ماحول عجیب ہوگا جس کا احساس آپ کو ہال میں قدم رکھتے ہی ہو جائے گا کیونکہ قہقہے اور غوغا اتنا ہوگا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ہر ملک کا پردیسی اپنی ثقافت کا مرقع دکھائی دے رہا ہوگا۔قمیص کی بالائی جیب سے بورڈنگ پاس جھانک رہے ہوں گے، ہاتھ میں دستی بقچہ تھامے ہوئے، خوشبو میں نہائے ہوئے ، گنجے نہ ہونے کی صورت میں بال انوکھے انداز میں بنائے ہوئے، نئے ملبوسات زیب تن، یہاں تک کہ آستین یا کالر پر گارمنٹس کمپنی کا ٹیگ جھولتا ہوا، کلائی میں قیمتی گھڑی، دوسرے ہاتھ میں بیش قیمت اسمارٹ فون، نئے نویلے بوٹ، اٹیچی کیس پر کاغذی ٹیپ چپکی ہوئی جس پرجلی حروف میں لکھا ہوااپنا نام،روانگی کے شہر اور منزل کا نام اور اس کے ساتھ اپنے دیس اور پردیس دونوں کے موبائل فون نمبرزاپنے تئیں انتہائی خوشخط انداز میں تحریرکئے ہوئے ، بس ایسے ایسے تین یا 4اٹیچی ان کا رخت سفر ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ لمحے لمحے کی پیشرفت سے آگاہ کرنے کے لئے اپنے وطن میںان کی آمد کا انتظار کرنے والی ہستی کو فون کرتے ہیںاور ’’مسرت آمیز تحکم‘‘کے ساتھ کہتے ہیں کہ بس صبح 8بجے ایئر پورٹ کے لئے گھر سے نکلنااور سنو! بنائو سنگھار کر کے ، تیار ہو کر آنا۔دوسری جانب سے نسوانی آواز یوں سنائی دیتی ہے ، ’’جی جی ! کیوں نہیں، میری ساری سج دھج آپ ہی کے لئے ہے ،یقین جانئے، آج میری عید ہے ۔‘‘ یہ جواب سن کر اس کی گردن اور تن جاتی ہے اور وہ خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت ’’دولہا‘‘ سمجھنے لگتا ہے ۔ پھروہ 30روز کے بعد دوبارہ پردیس لوٹتا ہے مگر اس مرتبہ وہ قادمون میں شامل ہوتا ہے جن کے لائونج میں خاموشی اس کا استقبال کرتی ہے ۔ وہ نئی، تازہ، سہانی یادوں کے ساتھ وطن سے لوٹتا ہے ، ساتھ ہی اسے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر میں نے11ماہ پردیس میں تنہائی سے نباہ کیا توایک ماہ کے لئے مجھے اس کا صلہ بھی تو ملا ۔ اس صلے کے بدلے وہ ایک اور برس کیلئے تنہائی کے ہم قدم ہونے کا عزم کر لیتا ہے۔یوںپردیسی ایسا عزم کرتے کرتے اپنی زندگی کی دہائیاں گزارتا چلا جاتا ہے اور ایک دن دنیا سے چلاجاتا ہے۔ہم نے ایسے ’’معصوم پردیسیوں‘‘ کی زندگی کے 3ادوار اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ ان کا ذکر ان شاء اللہ ، آئندہ سہی....
 

شیئر: