Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر ملکی کارکنان اور سعودائزیشن کی تعداد میں کمی کیوں؟

عبدالحمید العمری۔الاقتصادیہ
سماجی کفالت کے ادارے نے 2018ء کی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر نجی اداروں کے ملازمین کی تعداد سے متعلق اعداد و شمار جاری کر کے واضح کیا کہ سالِ رواں کے آغاز سے لیکر تاحال غیر ملکی کارکنان کی تعداد میں 9.8فیصد کمی واقع ہوئی ۔ 778.9ہزار غیر ملکی کارکن کم ہو گئے ۔ دوسری جانب نجی اداروں میں سعودی کارکنان کی شرح بھی 3.4فیصد کم ہوئی ۔ 60.6ہزار سعودی کارکن کم ہو گئے ۔ یہی منظر نامہ سالِ رواں کی تیسری سہ ماہی کے ریکارڈ میں دیکھنے کو ملا ۔
نجی اداروں میں سعودی اور غیر ملکی کارکنان کے اعداد و شمار کا تجزیاتی مطالعہ بتا رہا ہے کہ مذکورہ ادارے کے اعداد و شمار کا زور کم ماہانہ تنخواہوں والی ملازمتوں پر غیر ملکی کارکنان کی تعداد میں کمی پر مرتکز رہا ۔ اس کا تناسب 97فیصد تک پہنچ گیا۔ان اسامیوں سے ایسی ملازمتیں مراد ہیںجن پر کام کرنیوالے کو ماہانہ 3ہزار ریال محنتانہ ملتا ہے ۔ اس زمرے میں آنیوالے غیر ملکی کارکنان کی تعداد میں امسال 10.9فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔ 755.6ہزار کارکنان کم ہوئے جبکہ 3001سے 4999ریال ماہانہ تنخواہ پانے والے کارکنان کی تعداد میں 3.7فیصد کمی ریکارڈ کی گئی یعنی 14.3ہزار غیر ملکی کارکن کم ہوئے ۔ علاوہ ازیں ماہانہ 5ہزار ریال سے 9999ریال کے درمیان  تنخواہ لینے والے کارکنان کی تعداد میں 2.5فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی یعنی 8.4ہزار غیر ملکی کارکن کم ہوئے جبکہ ماہانہ 10ہزار ریال تنخواہ پانے والوں کی تعداد میں 0.2فیصد یعنی 551 غیر ملکی کارکنان کی کمی ریکارڈ پر آئی ۔ 
مذکورہ دورانیہ کے حوالے سے سعودی کارکنان کے تناسب میں جو تبدیلیاں آئیں ان کا منظر نامہ کچھ اسطرح ہے کہ ماہانہ 3ہزار ریال اور اس سے کم تنخواہ پانیوالے سعودیوں کی تعداد 9.7فیصد کم ہوئی جبکہ 3001ریال سے 4999ریال ماہانہ تنخواہ پانے والے تناسب میں 1.0فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ 5ہزار سے 9999ریال ماہانہ تنخواہ پانیوالوں کا تناسب 4.0فیصد کے حساب سے بڑھا۔ان کی تعداد میں 13ہزار کا اضافہ ہوا ۔ علاوہ ازیں ماہانہ 10ہزار ریال اور اس سے زیادہ کی تنخواہ پانیوالے سعودیوں کی تعداد میں 5.5فیصد کا اضافہ ہوا ۔ ان کی مجموعی تعداد 12.1 زیادہ ہے۔ 
تفصیلی اعداد و شمار سے چند نکات سامنے آئے ہیں ۔ پہلا یہ ہے کہ معمولی تنخواہوں اور مہارتوں والے کام غیر ملکی کر رہے ہیں ۔ سعودی مرد و خواتین کو ان ملازمتوں میں دلچسپی نہیں ،نہ انہیں اس قسم کی ملازمتوں پر تعینات کیا جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے لمبی چوڑی باتیں ہو چکی ہیں ۔ اس قسم کی ملازمتوں پر 2012ء سے لیکر 2015ء تک کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان کیلئے جو سعودی ملازم رکھے گئے وہ سب فرضی تھے ۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کی سعودائزیشن کے پروگرام مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکام ثابت ہوئے لہٰذا سعودی لیبر مارکیٹ میں اعلیٰ درجے کے عہدوں کی سعودائزیشن کے حوالے سے کوتاہی ریکارڈ کی گئی ۔ غیر ملکی کارکن اپنی ملازمتیں برقرار رکھے رہے ۔ کلیدی عہدوں پر نجی اداروں میں غیر ملکیوں کی موجودگی کا بھاری نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اعلیٰ عہدیدار سعودی کارکنان پر غیر ملکی ملازمین کو ترجیح دیتے ہیں ۔سعودائزیشن کے پرانے اور نئے پروگراموں میں یہ کمی خاص طور پر ریکارڈ کی گئی ہے ۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ وزارت محنت بیروزگاری ختم کرانے کیلئے جاری مہم پر نظر ثانی کرے ۔ سعودائزیشن کے پروگراموں کا نفاذ کلیدی عہدوں سے کیا جائے۔ ایسا ہو گا تو ہی بات بنے گی۔ 
 

شیئر: