Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اور کتنی بار عدالت کی توہین ہوگی؟

ہندوؤں کی اکثریت اب یہ سمجھ چکی ہے کہ مندر کے نام پر بی جے پی اور آر ایس ایس انہیں بہکا رہی ہے
ظفر قطب
آج کا دوربالکل 1992ء کے دور کی یاد دلا رہا ہے جب بابری مسجد کے سلسلے میں عدالت کی حکم عدولی ہوئی تھی اور خود ریاست کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے اس وقت قومی یک جہتی کمیشن میں جو لکھ کریہ وعدہ کیا تھا کہ وہ لوگ بابری مسجد کے حدود کے باہر صرف پوجا پاٹھ کریں گے لیکن مسجد کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے لیکن ہوا اس کا الٹا کار سیوا کے نام پر جس طرح وہاں جنگل راج کا مظاہرہ ہوا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ فرقہ پرستوں نے نہ صرف تمام قانونی قاعدے توڑ کر من مانی کی بلکہ تاریخی بابری مسجد عمارت کو زمیں بوس کردیا۔ پورے ہندوستان سے جمع کی گئی بھیڑ نے نہ قانون کی پروا کی اور نہ عدالتوں سے اپنا کیا گیا وعدہ ہی نبھایا۔ انہوں نے بابری مسجد کو صفحہ ہستی سے مٹادیا حالانکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ صرف مسجد چند اینٹوں اور گارے کی نہیں تھی بلکہ یہ اسلام کا ایک اہم مرکز تھا جہاں گزشتہ پانچ سو برس سے مسلمان جمع ہوکر پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔ کچھ تنگ نظر عوام کو اندازہ تھا کہ مسجد منہدم ہوجانے کے بعد قصہ تمام ہوجائے گا اور مسجد کے حامی افراد خوفزدہ ہوکر ایک کنارے ہوجائیںگے اور ہم آسانی کے ساتھ اس جگہ اپنا نیا مندر بنا کر یہ ثابت کردیں گے کہ ہم جو چاہیں آسانی سے کرسکتے ہیں لیکن جب انہیں اس کا اندازہ ہوا کہ زندہ و جاوید بابری مسجد جتنی پر امن اور خاموش تھی شہید مسجداس سے کہیں زیادہ پر خطر اور سخت تیور کی ہوگئی ہے۔ ان کے ہی لیڈران جنہوں نے مسجد کو شہید کرانے کے لئے بابری مسجد کے قریب اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں اور بڑی بڑی ڈینگیں ماری تھی اس وقت گھبرا کر چوہوں کی طرح نئے بلوں کی تلاش میں جٹ گئے تھے۔ جہاں وہ چھپ کر بیٹھ جائیں اور کوئی انہیں دیکھ نہ سکے لیکن قانون کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ لبرہان کمیشن نے جس طرح انہیں گھیرے میں لیا کہ ان کا بچنا اور چھپنا مشکل ہوگیا اور ایک ایک کرکے سب قانون کے دائرہ میں آگئے۔ بابری مسجد کے سلسلے میں جتنا قصور بی جے پی، آر ایس ایس اور دوسری ہندو شدت پسند تنظیموں کا ہے اس سے کم قصور اس وقت کی کانگریس نرسمہاراؤ حکومت کا نہیں ہے کیونکہ وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد گرانے کے لئے اچھا خاصا وقت تخریب کاروں کو مہیا کرادیا تھا اور سینٹرل فورسز کو اس وقت تک جائے وقوع پر جانے سے روک دیا تھا جب تک کہ نام نہاد کارسیوکوں نے وہاں ایک عارضی مندر بنا کر تیار نہیں کرلیا۔ اس کے بعد انہوںنے اقلیتی فرقہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے انتہائی مضحکہ خیز بیان دیا کہ مرکزی حکومت بابری مسجد کی جگہ پر دوسری مسجد جلد ہی تیار کرا دے گی اور جو مسجد منہدم کرنے کے خطاکار ہیں انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ کچھ خوش فہم سیاست دانوں کو نرسمہا راؤ کی باتوں پر یقین آگیا اور وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے کہ وہاں دوبارہ بابری مسجد تعمیر ہونے والی ہے حالانکہ یہ اسی طرح کا بہت بڑا دھوکہ تھا جس طرح کا دھوکہ بی جے پی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے دہلی کے قومی یک جہتی کمیشن میں جاکرتحریری طو رپر یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ۔ مسلمانوں نے واضح کردیا کہ ہم صرف عدالت کا فیصلہ ہی تسلیم کریں گے۔مسلمانوں نے اپنی اعلیٰ ظرفی دکھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر عدالت ہمارے خلاف فیصلہ دیتی ہے تب بھی ہم اسے تسلیم کریں گے لیکن فریق ثانی نے خاص طور پر اس سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر فیصلہ مندر کے حق میں نہیں آتا ہے تو ہم اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے ۔
رام جنم بھومی کا جہاں تک ذکر ہے بی جے پی نے اپنے مینی فیسٹو میں آخر میں جاکر صرف دو سطر کا ذکر کیا ہے اس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے۔ وزیراعظم مودی اپنی تقریروں میں بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ مندر تو بن کر رہے گا لیکن کہاں بنے گا اور کیسے بنے گا اس کی تفصیل میں نہ جاکر وہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے سب کی ترقی اور خوش حالی چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اس کا علم ہے کہ رام مندایسا لڈو ہے جسے نہ کھاتے بنے گا اور نہ اگلتے اس لئے جتنی اس میں تاخیر کی جاسکے وہی بہتر ہے کیونکہ اسی نام پر ہم کئی برسوں تک اس ملک پر حکمرانی کرسکیں گے حالانکی یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ ہندوؤں کی اکثریت اب یہ سمجھ چکی ہے کہ مندر کے نام پر بی جے پی اور آر ایس ایس ہمیں بہکا رہی ہے اسی لئے آج کا نوجوان بے روزگاری سے اکتا چکا ہے وہ روزگار چاہتا ہے جو مودی حکومت میں اسے ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ جس کا برملااظہار اب نوجوان لڑکے لڑکیاں کھل کر کرنے لگے ہیں اور بی جے پی کے ہی کئی وزرا اور لیڈران جن میں کابینی وزیر اوم پرکاش راج بھر شامل ہیں یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے بچوں کو روزگار چاہیے مند رنہیں۔ ان نظریات کو سمجھ کر بی جے پی خیمے میں سراسیمگی پھیل گئی ہے اور وہ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں مندر کے نام پر ووٹ کیسے ملے گا۔ اسی لئے اس مسئلے کو گرم رکھنے کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ امت شاہ اور اجودھیا کے پجاریوں نے مل کر یہ سازش رچی کہ کسی طرح عوام میں یہ پیغام جائے کہ مندر جلد بننے والا ہے اس پر سوشل میڈیا سے بھی مدد لی گئی اور جم کر یہ جھوٹا پرپیگنڈا ہوا کہ2019ء کے پارلیمانی الیکشن سے پہلے مندر کی تعمیر شروع ہوجائے گی۔ بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ دیوالی کے تہوار پر مندر کا تحفہ ہمیں مل جائے گا لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ ایک فیصلے نے بابری مسجد کی سماعت آئندہ برس تک کے لئے ٹال دی ہے اس سے رام مند رکے حامیوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ اب ان کے تیور باغیانہ ہوگئے ہیں اور وہ کھل کر توہین عدالت کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔ ڈپٹی وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ جیسے لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیاہے اگر فیصلہ مندر کے خلاف آتا ہے تو وہ ہرگز تسلیم نہیں کریں گے اور اجودھیا کے پرم ہنس داس جیسے سادھوؤں نے بھی یہ کہہ دیا ہے وہ 1992ء کی طرح بھیڑ جمع کرکے مندر کی تعمیر شروع کردیں گے۔ اب یہ بہت بڑا مسئلہ ہمارے قانون اور آئین کے سامنے ہے کہ کیا بی جے پی ایک بار پھر توہین عدالت کا ارتکاب کرے گی اور سپریم کورٹ خاموشی کے ساتھ دیکھتا رہے گا؟
مزید پڑھیں:- - - - -آسیہ کی رہائی ، حکومت ردعمل کےلئے تیار ہے؟

شیئر: