Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فضائی آلودگی کا قہر

معصوم مرادآبادی

سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنے والے افرادیہ سوچ کر خوش ہوسکتے ہیں کہ وہ ان خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہیں جو تمباکو نوشی سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریئے آپ کا یہ اندازہ درست نہیں ہے کیونکہ صرف راجدھانی دہلی میں اتنی فضائی آلودگی موجود ہے کہ آپ روزانہ 20 سگریٹوں کے برابر دھواں اپنے سینے میں جذب کرلیتے ہیں اور آپ کو اپنے پھیپھڑوں کی اس تباہی کا اندازہ بھی نہیں ہوپاتا جو خطرناک آلودگی کے نتیجے میں مسلسل ہورہی ہے۔ یہ حال صرف راجدھانی دہلی کا نہیں ہے بلکہ آس پاس درجنوں شہر ایسے ہیں جہاں فضائی آلودگی اپنی تباہ کاریوں کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں نائٹروجن آکسائیڈ پیدا کرنے والے تین سب سے بڑے مراکز ہندوستان میں ہی واقع ہیں۔ گرین پیس کی رپورٹ میں ان مراکز کو دہلی ، سون بھدر(یوپی) سنگرولی (مدھیہ پردیش) اور تال چیر (اوڈیشہ) کے طورپر نشان زدکیاگیا ہے۔ یہاں ایسے پارٹی کولیٹ میٹر (پی ایم) بنتے ہیں جو خطرناک آلودگی پیدا کرنے کے اہم اسباب میں شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتہ دہلی اور اس کے آس پاس کے شہروں میں آلودگی اپنی تمام تباہ کاریوں کے ساتھ اس سطح تک پہنچ چکی تھی کہ یہاں سانس لینا مشکل ہوگیا تھا اور لوگ راجدھانی کو گیس چیمبر سے تشبیہ دینے لگے تھے۔ حالات اس حد تک خراب تھے کہ گھر میں موم بتی اور اگربتی جلانے سے بھی لوگوں کو منع کردیاگیا تھا۔ اس عرصے میں لوگوں نے آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں زبردست پریشانیاں محسوس کیں۔ سب سے زیادہ خطرناک صورت حال کا سامنا صبح صبح سیر کو جانے والے لوگوں کو کرنا پڑا۔ جبکہ عام طورپر صبح کا وقت خوشگوارموسم اور آکسیجن کے لئے سب سے موزوں خیال کیاجاتا ہے۔ دہلی کے 18علاقوں میں آلودگی کی سطح انتہائی خطرناک مراحل میں داخل ہوچکی تھی۔ آنند وہار علاقے میں حالات سب سے زیادہ دگرگوں تھے۔ فرید آباد، غازی آباد، گڑگاؤں اور نوئیڈا میں بھی آلودگی خطرناک حدوں کو پار کرچکی تھی۔ ایسے میں عام طورپر لوگ دھول والے ماسک پہن کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دہلی میں آلودگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دھول سے بچنے کے لئے پہنے جانے والے ماسک نا کافی ہیں۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پی ایم 10اور پی ایم 2.5 سانس کے ذریعے پھیپھڑوں اور دل تک پہنچتا ہے۔ اس سے نسوں میں سوجن بھی ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ سے دل کا دورہ اور لقوہ بھی ممکن ہے۔ دہلی جیسے شہر میں جہاں ایک کروڑ سے زیادہ چھوٹی بڑی موٹر گاڑیوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والی آلودگی اور تعمیرات کے نتیجے میں اڑنے والی دھول ہر لمحہ آپ کے وجود میں جذب ہورہی ہے۔ ایسے میں آپ صحت مند زندگی کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
عالمی صحت تنظیم ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں ہندوستان میں آلودگی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بربادی کے جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں، وہ ہماری ترقی کے تمام تر دعوؤں کی پول کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ہمیں نائیجیریا، پاکستان اور کانگو جیسے پسماندہ اور سنگین مسائل سے دوچار ملکوں کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں۔ جبکہ ہم اپنا موازنہ امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں سے کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں کہ ہماری سیاسی قیادت نے ہمیں خوش فہمیوں کے مرض میں مبتلا کررکھا ہے۔ ظاہر ہے اگر ہم ڈبلیو ایچ او کی وارننگ پر بیدار نہیں ہوئے تو سب سے تیز رفتار ترقی کا دعویٰ اور عالمی قائد بننے کا سنہرا خواب ہی مٹی میں نہیں ملے گا بلکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ ڈبلیو ایچ او کا جائزہ ہمیں باور کراتا ہے کہ 2016میں ہندوستان میں ایک لاکھ 10ہزار بچے زہریلی آب وہوا کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد 61ہزار ہے اور باقی بچے پانچ سال سے چودہ سال کے درمیان کے ہیں۔ ان اعدادوشمار کو بچوں سے آگے لے جائیں تو فضائی آلودگی سے ہونے والی ناگہانی اموات میں ہندوستان کا حصہ دنیامیں 25فیصد ہے۔ پوری دنیا میں 2016 میں فضائی آلودگی اور سانس کی بیماریوں سے 6لاکھ  بچوں کی موت واقع ہوئی۔
دنیا میں ماحولیا ت کی نگرانی کرنے والی تنظیم’ گرین پیس‘نے ہندوستان میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور اس کے مضر اثرات پر چونکانے والی رپورٹ پیش کی ہے۔ گرین پیس کے مطابق دہلی ، اوڈیشہ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش وہ ریاستیں ہیں جہاں نائٹرک آکسائیڈ کا اخراج خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں سخت ہدایات جاری کی ہیں لیکن سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے اور اس کے گردونواح میں آلودگی کا حال سب سے زیادہ سنگین ہے۔ دہلی کے علاوہ کانپور، آگرہ اور لکھنؤ جیسے وسطی اترپردیش کے شہر چھوڑ دیئے جائیں تو کم ازکم 17انتہائی آلودہ شہر ایسے ہیں جو دہلی کے آس پاس پائے جاتے ہیں۔ حکومت نے حالات کو قابو میں کرنے کے لئے کچھ ایسی ہدایات ضرور جاری کی ہیں جو اس سے پہلے کبھی جاری نہیں کی گئیں۔ ان میں پرائیویٹ گاڑیوں کو سڑکوں سے ہٹانے سے لے کر تعمیرات پر وقتی پابندی شامل ہے۔ لیکن دہلی کی حالت محض کچھ عرصے کے لئے تعمیرات پر پابندی عائد کرنے، فیکٹریوں کو آبادیوں سے باہر کرنے اور دس یا پندرہ سال پرانی گاڑیوں کو ضبط کرنے سے قابو میں آنے والی نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ موضوع اتنا وسیع اور سنگین ہے کہ اس کے لئے ترقی کے پورے ماڈل کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت صرف جذباتی موضوعات کو اہمیت دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں فضائی آلودگی آسمان کو چھو رہی ہے تو سیاست داں ایودھیا، سبری مالا اور دوسرے جذباتی موضوعات میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اس مسئلے کی تباہ کاریوں کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کیونکہ صحت اور تندرستی، تحفظ اور سیکورٹی یا روزگار جیسے موضوعات ہمارے ملک کے عوام کو بیدار نہیں کرتے کیونکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمارے معاشرے میں کوئی منظم تحریک ہی موجود نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماحولیات کو علمی نہیں بلکہ سیاسی اور قانونی موضوع بنایاجائے تاکہ حکومت اپنی جواب دہی محسوس کرے اور عام لوگ صحت مند اور محفوظ زندگی گزارنے کا حق پاسکیں-

مزید پڑھیں:- - - -اللہ کارساز ہے

 

شیئر: