Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب ...پرامن ایٹمی کلب میں داخل

ڈاکٹر امین ساعاتی ۔ الاقتصادیہ
بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب وژن 2030 میں منظور شدہ متعدد ایٹمی منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے کئی ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے کے بعد پرامن بین الاقوامی ایٹمی کلب میں داخل ہوگیا ہے۔
بعض مبصرین ایٹمی پلانٹ کی بابت خدشات ظاہر کررہے ہیں تاہم ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کا کہناہے کہ اب ایٹمی پلانٹ سلامتی کیلئے پرخطر نہیں رہے۔ اسی لئے بین الاقوامی ایٹمی مارکیٹ میں صاف ستھری ایٹمی توانائی کے استعمال کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ ماضی میں پیٹرول، گیس اور کوئلے کے استعمال پر زیادہ زور تھا۔ اب اسکے مقابلے میں صاف ستھری ایٹمی توانائی کو ترجیح دی جانے لگی ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ایٹمی توانائی ہی کو ترجیح دی جارہی ہے۔ شمسی توانائی پر بھی اس کو سبقت حاصل ہے۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی پائدار ترقیاتی پروگرام میں ایٹمی توانائی کے استعمال کی سفارش کرنے لگی ہے
سعودی عرب کو آئندہ دس برس کے دوران ہزاروں میگا واٹ بجلی اور لاکھوں ٹن پینے کے پانی کی ضرورت پڑیگی۔ سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا وسیع و عریض ملک ہے۔ اس کے مشرق و مغرب میں سمندرکے ساحل پھیلے ہوئے ہیں۔ ساحل پر ایٹمی پلانٹ آسانی سے قائم کئے جاسکتے ہیں۔ ایٹمی توانائی کے مثبت اور براہ راست اثرات دسیوں شعبوں پر پڑیں گے۔ خاص طورپر بجلی سازی اور کھارے پانی کو میٹھا بنانے والے منصوبوں کو اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ علاوہ ازیں کھیتی باڑی، صحت، صنعت، تعلیم بلکہ پیٹرول اور گیس نکالنے میں بھی اس کی بدولت سہولت ملے گی۔سعودی عرب گزشتہ 10 برس کے دوران ایٹمی توانائی کے ماہر تربیت یافتہ افراد تیار کرچکا ہے۔ سعودی جامعات بھی اس تبدیلی کیلئے تیار ہیں۔ انکے یہاں تربیت یافتہ انجینیئرز، تکنیکی عملہ اور اعلیٰ تعلیم پانے والے طلباءموجود ہیں۔ ہمارے یہاں انجینیئرنگ اور ایٹمی فزکس کے شعبے 10سے زیادہ جامعات میں کھلے ہوئے ہیں۔ ان شعبوں سے اچھی خاصی تعداد تیار ہوچکی ہے۔ ریسرچ سینٹرز ، انسٹی ٹیوٹس اور اس طرح کے دسیوں نئے شعبے بھی کھولے جاسکتے ہیں۔اس کی ذمہ داری کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی اور کنگ عبداللہ ایٹمی توانائی سٹی کی ہے۔
مملکت میں کھارے پانی کو استعمال کے قابل بنانے کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاگت بھی کم ہوگی۔ اس سے پیٹرول کا بھاری مقدار میں ضیاع بند ہوگا۔ اس کی بدولت سعودی عرب کی آنے والی نسلوں کو خام پیٹرول ملتا رہیگا۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوگی۔
ایٹمی توانائی کی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ اگرمختلف ممالک بھاری مقدار میں پیٹرول استعمال کرتے رہے تو ایسی صورت میں پیٹرول کے ذخائر آئندہ چند عشروں میں ختم ہوجائیں گے۔ ویسے بھی پیٹرول کے نرخ کفایت شعاری کے دائرے سے نکل گئے ہیں۔ ان سے اچھے نرخ ایٹمی توانائی کے ہیں۔ ایجنسی کا یہ بھی کہناہے کہ ایٹمی توانائی ہی دنیا بھر میں صاف ستھری، سستی اور مناسب نعم البدل ہے۔ بڑے ممالک نے جو تیل بھاری مقدار میں استعمال کررہے ہیں پیٹرول کی بجائے ایٹمی توانائی کے استعمال کا عندیہ دینا شروع کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیمیں بھی پیٹرول کے استعمال سے ہونے والی آلودگی کے نقصانات سے مسلسل آگاہ کررہی ہیں۔اس تناظر میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پوری قوت سے ایٹمی توانائی سائنس کا رخ کرنے لگے ہیں۔ ایٹمی توانائی ”ایٹمی میڈیسن“، زرعی محصولات، کھاد وغیرہ میں بھی اہم کردارادا کرنے لگی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے سعودی عرب کو تمام نعمتوں اور وسائل سے مالا مال کررکھا ہے۔ ہمارے یہاں تیل کے ذخائر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ ہمارے یہاں شمسی توانائی کا سرچشمہ سب سے بڑاہے۔ یہاں سال بھر سورج کی تیز شعاعیں پڑتی ہیں جو شمسی توانائی کا اہم ماخذ ہیں۔ اسی طرح ہمارے یہاں سمندر ی ساحل کی پٹی سیکڑوں میل میں پھیلی ہوئی ہے جہاں جتنے چاہیں ایٹمی پلانٹ قائم کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: