Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کے مابین انصاف،والدین پر لازم

نبیٔ مکرم بچوں کو اپنی مجلس میں شریک کرتے بلکہ اپنے ساتھ سواری پر بٹھالیتے ، بسا اوقات اپنے ساتھ منبر پر بٹھالیتے تھے
 
* * *محمد منیر قمر۔ الخبر* * *
    والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کے مابین محبت میں انصاف اور مساوات سے کام لیں۔ کسی بچے میں عقل مندی دیکھی تو اسے تمام بچوں پر ترجیح دی، کوئی زیادہ خوب صورت ہے تو اس سے بے حد پیار کیا، کسی کو اس لئے دھتکارا کہ وہ لڑکی ہے یا چالاک و ہوشیار نہیں ، یہ اولاد کے ساتھ ظلم ہے۔ اس سے اولاد کے مابین آپس میں بغض اور عناد پیدا ہو جاتا ہے۔
     یہ جذبہ انھیں کبھی کبھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے بلکہ قتل کردینے تک کی سوچنے لگتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر ان کے بھائیوں کا حسد بھی اسی قبیل سے تھا۔جب انھوں نے محسوس کیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام، ہمارے مقابلے میں حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ پیار کرتے ہیں، تب انھوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو راہ سے ہٹانے کی سازش کی۔ قرآن کے بیان کے مطابق:
    ’’جبکہ انھوں نے کہا: یوسف اور اس کا بھائی (بنیامین) بہ نسبت ہمارے، ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں۔‘‘(یوسف8)۔
    پھر جو ہوا اس کی تفصیل سورۂ یوسف میں مذکور ہے۔
    والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے معاملے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈریں اور ان کیساتھ انصاف کریں۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کیلئے رسول اﷲ کی ہدایات حسبِ ذیل ہیں:
    i حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ ان کے والد اُن کو لے کر رسول اﷲ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:
     ’’میں نے اپنے اس لڑکے کو ایک غلام عطا کیا ہے۔‘‘
    رسول اﷲ نے فرمایا:
    ’’کیا تم نے اپنے سارے لڑکوں کو اسی طرح دیا ہے؟‘‘
    انھوں نے کہا: نہیں۔
     پھر آپ نے فرمایا:
    ’’تم اپنا عطیہ واپس لے لو۔‘‘
    دوسری روایت میں ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا:
    ’’(اولاد کے معاملے میں) اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو۔‘‘
    تب میرے باپ نے وہ عطیہ لوٹا لیا۔
    ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اﷲنے ارشاد فرمایا:
    ’’اے بشیر! کیا اس لڑکے کے علاوہ بھی تمہارے بچے ہیں؟‘‘
    انھوں نے کہا: ہاں ہیں۔آپ نے فرمایا:
    ’’کیا تم نے ان تمام کو ایسے ہی دیا ہے؟‘‘ کہا: نہیں دیا۔آپ نے فرمایا:
    ’’تب تم مجھے اس معاملے میں گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘
    i بچوں سے محبت و شفقت فطری چیز ہے۔ ماں کی اپنی اولاد سے محبت فطری اور مثالی ہے۔ مختلف موقعوں پر رسول اکرم نے اس کی مثال دی ہے۔ ایک غزوے کا واقعہ ہے، حضرت عمر بن الخطابؓ  فرماتے ہیں:
    ’’رسول اﷲ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جن میں ایک عورت بھی تھی (جس کا دودھ پیتا بچہ جنگ میں اس سے بچھڑ گیا تھا)، قیدیوں میں وہ جب بھی کسی بچے کو پاتی، اسے لے لیتی اور اپنے سینے سے چمٹا کر دودھ پلاتی۔ آپ نے (اس عورت کی یہ کیفیت دیکھی تو )صحابہؓ سے فرمایا:’’کیا یہ عورت اپنے حقیقی بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے؟‘‘
    صحابہ کرامؓ نے کہا: اﷲ کی قسم! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا:
    ’’یہ اپنے بچے پر جتنی مہربان ہے، اس سے کہیں زیادہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔‘‘
    i بعض باپوں کا اپنی اولاد سے رویہ انتہائی خشک اور محبت وشفقت سے خالی رہتا ہے۔ وہ اپنے باپ ہونے کا صرف یہی ایک سب سے بڑا حق سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے اور ان کے ساتھ تلخ رویہ اپنایا جائے۔ بسا اوقات والد کے اس معاندانہ رو ئیے سے عاجز آکر بچے پہلے تو احتجاج کرتے ہیں، جب احتجاج سے مطلب برآری نہیں ہوئی تو پھر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغاوت پر مائل ہوجاتے ہیں حالانکہ نبی اکرم  تو بچوں کیساتھ بے انتہا محبت و شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہنے حضرت حسن بن علیؓ  کو پیار کیا ۔ آپ کی مجلس میں حضرت اقرع بن حابس التیمیؓ  بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا: میرے10 لڑکے ہیںلیکن میں نے آج تک کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپ نے ان پر (افسوس کی) نظر ڈالتے ہوئے فرمایا:
    ’’جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
    iایک اعرابی رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوکر (تعجب سے) کہنے لگا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں جبکہ ہم ایسا نہیں کرتے؟ آپ نے تعجب سے اسے دیکھتے ہوئے فرمایا:
    ’’اگر اﷲ تعالیٰ تمہارے دل سے محبت کو نکال لے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
    i بچوں سے نبی کریم کی محبت کا عالم یہ تھا کہ اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ  کے فرزند حضرت اسامہ بن زیدؓ  کو اپنی گود میں لیتے، سینے سے چمٹا لیتے اور فرماتے:    ’’یااﷲ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ۔‘‘
    *  حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں:
    ’’رسول اﷲ دن کے ایک حصے میں باہر تشریف لائے۔ میں آپ کے ساتھ تھا۔ ہم دونوں بالکل خاموش تھے۔ آپ نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں کچھ بولنے کی جرأت کرسکا، یہاں تک کہ آپ بنی قینقاع کے بازار تک آئے، پھر حضرت فاطمہؓکے صحن میں آکر بیٹھ گئے اور فرمایا:
     ’’چھوٹا کہاں ہے ؟چھوٹا کہاں ہے؟‘‘
    لیکن انھیں حضرت فاطمہؓنے کچھ دیر روک لیا تو میں سمجھ گیا کہ حضرت فاطمہ ؓ  انھیں خوشبو کا ہار پہنا رہی ہیں یا نہلا دھلا رہی ہیں، پھر حضرت حسنؓ  تیزی سے دوڑتے ہوئے آئے اور آتے ہی نبی کریم کے سینے سے لپٹ گئے۔ آپ نے انھیں پیار کیا اور فرمایا:’’اے اﷲ! تو اسے لوگوں کا محبوب بنا اور جو اس سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت کر۔‘‘
    iحضرت بریدہؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں حضرت حسنؓ اور حسینؓ  آئے۔ دونوں سرخ قمیص زیبِ تن کئے ہوئے تھے(قمیص کی لمبائی کی وجہ سے) چلتے ہوئے لڑکھڑا کر گر رہے تھے، آپ سے رہا نہیں گیا تو آپ منبر سے نیچے تشریف لائے اور انھیں اٹھاکر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر آپ نے سورۃ الانفال کی وہ آیت پڑھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’بے شک تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں۔‘‘(التغابن15)۔
پھر فرمایا:    ’’میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا کر گر رہے تھے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا، یہاں تک کہ مجھے اپنی بات کو روک کر انھیں اٹھانا پڑا۔‘‘
    *  نبیٔ مکرم بچوں کو اپنی مجلس میں شریک کرتے بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھالیتے ۔ بسا اوقات اپنے ساتھ منبر پر بٹھالیتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علیؓ  کو منبر پر بٹھایا اور کبھی انھیں اور کبھی لوگوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا:
    ’’یہ میرا بیٹا سردار ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی 2جماعتوں میں صلح کرا دے۔‘‘
    یہ پیشین گوئی 41ھ میں پوری ہوئی جبکہ آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرکے مسلمانوں کو ایک عظیم کُشت وخون اور باہمی افتراق وانتشار سے نجات دلائی۔
    * نبی کریم نے اپنی نواسی حضرت امامہ بنت ابوالعاصؓ کو حالتِ نماز میں بھی اٹھائے رکھا۔ عالم یہ تھا کہ حالت ِ قیام میں کندھے پر سوار کرلیتے اور جب حالتِ رکوع یا سجدے میں جاتے تو اتار دیتے تھے۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے 10 سال آپکی خدمت کی لیکن کبھی مجھے آپ نے یہ نہیں کہا:
    ’’یہ کام تم نے کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا؟‘‘
    انصاری بچیاں رسولِ اکرم کی خدمت میں آتیں اور خوشیوں کے موقعے پر دف بجا بجا کر آپ کی تعریف میں اشعار پڑھتیں۔ جب کبھی آپ تعریف میں غلو محسوس فرماتے تو بڑے پیار سے منع فرماتے ۔ ایک مرتبہ ایک بچی نے یہ مصرع پڑھا:
    ’’ہم میں ایسے رسول ہیں جو کل کو پیش آنے والے حالات بھی جانتے ہیں۔‘‘
     آپ نے سنا تو فرمایا:
    ’’یہ نہ کہو، بلکہ وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘
    محبت و شفقت کا یہی برتاؤ حضراتِ صحابہ کرامؓ  کا تھا۔ وہ بھی ہر معاملے میں رسولِ اکرم کا پر تو تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے متعلق آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓنے حضرت حسنؓ  کو اپنے کندھے پر سوار کرلیا اور فرمانے لگے:’’یہ رسول اﷲ کے زیادہ مشابہ ہیں نہ کہ حضرت علیؓ کے۔‘‘
    حضرت علیؓ یہ سن کر ہنسنے لگے۔
    بچوںکو بلانے کا انداز :
    قرآنِ مجید نے اپنے ماننے والوں کو اس کی بھی تعلیم دی ہے کہ باپ اپنے بچوں کو کن الفاظ سے مخاطب ہو اور اولا کن الفاظ سے اپنے باپ کو بلائے۔ قرآنِ مجید میں اس طرح کے کئی واقعات مذکور ہیں جن میں اﷲ کے نیک بندوں نے اپنی اولاد کو خطاب کیا اور انتہائی محبت وشفقت کے ساتھ اُن الفاظ میں مخاطب کیا جن سے زیادہ محبت کے الفاظ کہیں نہیں مل سکتے۔
    حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے لڑکے کنعان کو طوفان میں آواز دیتے ہوئے کہا:
    { یٰبُنَیَّ} ’’اے میرے بیٹے!‘‘ (ھود42)۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
     { یٰبُنَیَّ} ’’اے میرے بچے!‘‘ (الصافات102)۔
    حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
    { یٰبُنَیَّ}  ’’اے میرے بیٹے‘‘(یوسف5)۔
    حضرت لقمانؒ نے اپنے لڑکے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
    { یٰبُنَیَّ} ’’اے میرے بیٹے!‘‘ (لقمان13)۔
مزید پڑھیں:- - - - -آپ کے دنیا میں آخری لمحات

شیئر: